چٹانوں میں فائر | 11: صوفیہ کے اغوا کی کوشش: عمران کا غیر متوقع رد عمل

 صوفیہ کے اغوا کی کوشش: عمران کا غیر متوقع رد عمل

Chapter 11 Feature Image

انسپکٹر خالد سوناگری کے جیفریز ہوٹل کی رقص گاہ میں کھڑا ناچتے ہوئے جوڑوں کا جائزہ لے رہا تھا.... اس کے ساتھ اس کے سیکشن کا ڈی ایس بھی تھا۔

"دیکھئے وہ رہا۔" خالد نے عمران کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ جو ڈکسن کی لڑکی مارتھا کے ساتھ ناچ رہا تھا....

آج صوفیہ اپنے مہمانوں سمیت یہاں آئی تھی لیکن اس نے رقص میں حصہ نہیں لیا تھا۔

”اچھا!" ڈی ایس نے حیرت کا اظہار کیا۔ ”یہ تو ابھی لونڈا ہی معلوم ہوتا ہے! خیر میں نے کیپٹن فیاض سے اس کی حیثیت کے متعلق پوچھا ہے! اوہ ادھر غالباً ضرغام کی لڑکی صوفیہ ہے! اس کے ساتھ وہ ڈاڑھی والا کون ہے۔“

"کوئی مہمان ہے۔ بار توش-- زیکو سلواکیہ کا باشندہ!.... اور وہ کرنل ڈکسن ہے!.... اس کی لڑکی مارتھا عمران کے ساتھ ناچ رہی ہے۔“

"اس عمران پر گہری نظر رکھو۔“ ڈی ایس نے کہا۔ ”اچھا اب میں جاؤں گا۔" ڈی ایس چلا گیا۔

رقص بھی ختم ہو گیا! عمران اور مار تھا اپنی میزوں کی طرف لوٹ آئے..... خالد چند لمحے انہیں گھورتا رہا پھر وہ بھی رقص گاہ سے چلا گیا۔

عمران بڑی موج میں تھا! مارتھا دو تین ہی دنوں میں اس سے کافی بے تکلف ہو گئی تھی! وہ تھی ہی کچھ اس قسم کی! عارف اور انور سے بھی وہ کچھ اس طرح گھل مل گئی تھی جیسے برسوں پرانی جان پہچان ہو!

"تم اچھا ناچتے ہو۔“ اس نے عمران سے کہا۔

"واقعی!" عمران نے حیرت سے کہا! "اگر یہ بات ہے! تو اب میں دن رات ناچا کروں گا۔ میرے پایا بہت گریٹ آدمی ہیں۔ انہیں بڑی خوشی ہو گی۔"

"کیا تم واقعی بےوقوف آدمی ہو۔" مار تھا نے مسکرا کر پوچھا۔

"پاپا یہی کہتے ہیں۔"

"اور بچے کی ممی کا کیا خیال ہے۔“

"ممی جوتیوں سے مرمت کرنے کی اسپیشلسٹ ہیں۔ اس لئے خاص ہی خاص مواقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔“

”میں نہیں سمجھی۔“

"نہ سمجھی ہو گی.... انگلینڈ میں جوتیوں سے اظہار خیال کا رواج نہیں ہے۔"

اتنے میں عارف کی کسی بات پر مارتھا اس کی طرف متوجہ ہو گئی ویٹر ان کے لئے کافی کی ٹرے لا رہا تھا۔ اس میں ایک گلاس آرینج اسکوائش کا بھی تھا یہ صوفیہ نے اپنے لئے منگوایا تھا! ویٹر ابھی دور ہی تھا کہ اس کے قریب سے گذرتا ہوا ایک آدمی اس سے ٹکرا گیا! ویٹر لڑکھڑایا ضرور مگر سنبھل گیا! اور اس نے ٹرے بھی سنبھال لی....!

عمران سامنے ہی دیکھ رہا تھا! اس کے ہونٹ ذرا سا کھلے اور پھر برابر ہو گئے وہ اس آدمی کو دیکھ رہا تھا جو ویٹر سے ٹکرانے کے بعد اس سے معافی مانگ کر آگے بڑھ گیا تھا۔

جیسے ہی ویٹر نے ٹرے میز پر رکھی! عمران اس طرح دوسری طرف مڑا کہ اس کا ہاتھ آرینج اسکوائش کے گلاس سے لگا اور گلاس الٹ گیا....

"اوہو!... کیا مصیبت ہے!" عمران بوکھلا کر بولا اور گلاس سیدھا کرنے لگا۔

"تم شاید کبھی شریف آدمیوں کے ساتھ نہیں رہے!“ کرنل ڈکسن جھنجھلا گیا! لیکن بار توش اسے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔

"میں ابھی دوسرا لاتا ہوں!" عمران نے صوفیہ کی طرف دیکھ کر کہا اور گلاس اٹھا کر کھڑا ہو گیا! صوفیہ کچھ نہ بولی اس کے چہرے پر بھی ناگواری کے اثرات نظر آرہے تھے۔

عمران نے کاؤنٹر پر پہنچ کر دوسرا گلاس طلب کیا!.... اتنی دیر میں ویٹر میز صاف کر چکا تھا!

عمران گلاس لے کر واپس آگیا.... صوفیہ کی شلوار اور مارتھا کے اسکرٹ پر آرینج اسکوائش کے دھبے پڑ گئے تھے اس لئے وہ دونوں ہی بڑی شدت سے بور نظر آرہی تھیں! ایسی صورت میں وہاں زیادہ دیر تک ٹھہرنا قریب قریب ناممکن تھا! لیکن اب سوال یہ تھا کہ وہ اٹھیں کس طرح؟ ظاہر ہے کہ اسکرٹ اور شلوار کے دھبے کافی بڑے تھے اور دور سے صاف نظر آرہے تھے۔

"تم جیسے بدحواس آدمیوں کا انجام میں نے ہمیشہ برا دیکھا۔“ کرنل عمران سے کہہ رہا تھا۔

” ہاں۔“ عمران سر ہلا کر بولا۔ ”مجھے اس کا تجربہ ہو چکا ہے! ایک بار میں نے سنکھیا کے دھوکے میں لیمن ڈراپ کھا لیا تھا۔“

مارتھا جھلاہٹ کے باوجود مسکرا پڑی۔

"پھر کیا ہوا تھا۔“ عارف نے پوچھا۔

"بچہ ہوا تھا!.... اور مجھے انکل کہتا تھا!" عمران نے اردو میں کہا۔ ”تم بہت چہکتے ہو لیکن مارتھا تم پر ہرگز عاشق نہیں ہو سکتی۔“

"کیا فضول بکواس کرنے لگے۔ “ صوفیہ بگڑ کر بولی۔

عمران کچھ نہ بولا.... وہ کچھ سوچ رہا تھا اور اس کی آنکھیں اس طرح پھیل گئی تھیں جیسے کوئی الو یک بیک روشنی میں پکڑ لایا گیا ہو…..

تھوڑی دیر بعد وہ سب واپسی کے لئے اٹھے۔

صوفیہ کی شلوار کا دھبہ تو لمبے فراک کے نیچے چھپ گیا! لیکن مارتھا کے سفید اسکرٹ کا دھبہ بڑا بدنما معلوم ہو رہا تھا۔ جوں توں وہ اسٹیشن ویگن تک آئی۔

عمران کی وجہ سے جو بےلطفی ہو گئی تھی اس کا احساس ہر ایک کو تھا! لیکن سلواتیں سنانے کے علاوہ اور اس کا کوئی کر ہی کیا سکتا تھا!۔

اسٹیشن ویگن کرنل ضرغام کی کوٹھی کی طرف روانہ ہو گئی! رات کافی خوشگوار تھی اور مارتھا انور کے قریب ہی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس لئے انور نے گاڑی کی رفتار ہلکی ہی رکھی تھی۔

اچانک ایک سنسان سڑک پر انہیں تین باوردی پولیس والے نظر آئے جو ہاتھ اٹھائے گاڑی کو رکوانے کا اشارہ کر رہے تھے۔ انور نے رفتار اور کم کر دی، اسٹیشن ویگن ان کے قریب پہنچ کر رک گئی!.... ان میں ایک سب انسپکٹر تھا اور دو کانسٹیبل!….

سب انسپیکٹر آگے بڑھ کر گاڑی کے قریب پہنچتا ہوا بولا۔

"اندر کی بتی جلاؤ۔“

"کیوں؟" عمران نے پوچھا۔

"ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس گاڑی میں بےہوش لڑکی ہے۔“

"ہاہا!" عمران نے قہقہہ لگایا۔ "بے شک ہے۔ بے شک ہے۔“

انور نے اندر کا بلب روشن کر دیا اور سب انسپکٹر چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ایک ایک کی طرف دیکھنے لگا.... عمران بڑی دلچسپی سے اس کے چہرے پر نظر جمائے ہوئے تھا!

"کہاں ہے؟" سب انسپکٹر گر جا!....

”کیا میں بیہوش نہیں ہوں۔" عمران ناک پر انگلی رکھ کر لچکتا ہوا بولا۔ ”میں بیہوش ہوں تبھی تو مردانہ لباس پہنتی ہوں!.... اے ہٹو بھی!"

صوفیہ انور اور عارف بے تحاشہ بننے لگے۔

"کیا بیہودگی ہے۔“ سب انسپکٹر جھلا گیا۔

"لیکن کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس قسم کی اطلاع کہاں سے آئی ہے۔“ عمران نے پوچھا۔

"کچھ نہیں! جاؤ۔۔ وہ کوئی دوسری گاڑی ہو گی!" سب انسپکٹر گاڑی کے پاس سے ہٹ گیا!... گاڑی چل پڑی!....

مارتھا صوفیہ سے قہقہوں کی وجہ پوچھنے لگی.... پھر وہ بھی بنسنے لگی!

”پتہ نہیں کس قسم کا آدمی ہے!“ اس نے کہا۔

اسے توقع تھی کہ عمران اس پر کچھ کہے گا ضرور! لیکن عمران خاموش ہی رہا وہ کسی گہری سوچ میں معلوم ہو تا تھا!

ابھی زیادہ رات نہیں گذری تھی۔ اس لئے گھر پہنچ کر وہ سب کے سب کسی نہ کسی تفریح میں مشغول ہو گئے۔ انور اور بارتوش بلیرڈ کھیل رہے تھے! کرنل اور عارف برج کھیلنے کے لئے صوفیہ اور مارتھا کا انتظار کر رہے تھے جو لباس تبدیل کرنے کے لئے اپنے کمروں میں چلی گئی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد عمران نے مارتھا کے کمرے کے دروازے پر دستک دی!

”کون ہے؟“ اندر سے آواز آئی۔

”عمران دی گریٹ فول۔“

"کیا بات ہے۔" مارتھا نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔ وہ اپنا اسکرٹ تبدیل کر چکی تھی۔

"مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہارا اسکرٹ خراب ہو گیا۔“

"کوئی بات نہیں!“

"اوہ نہیں! لاؤ.... اسکرٹ مجھے دو۔ ورنہ وہ دھبہ مستقل ہو جائے گا!“

”ارے نہیں تم اس کی فکر نہ کرو۔“

"لاؤ-- تو.... ورنہ مجھے اور زیادہ افسوس ہو گا!"

"تم سے تو پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔“

تھوڑی رد و قدح کے بعد مارتھا نے اپنا اسکرٹ عمران کے حوالے کر دیا اب وہ صوفیہ کے کمرے میں پہنچا۔ اس کے ایک ہاتھ میں مارتھا کا اسکرٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں دودھ کی بوتل!

"یہ کیا؟" صوفیہ نے حیرت سے پوچھا۔

"دھبہ چھڑانے جارہا ہوں! لاؤ تم بھی شلوار دے دو۔“

”کیا بے تکی بات ہے! عمران صاحب سچ سچ آپ بعض اوقات بہت بور کرتے ہیں۔“

"نہیں لاؤ!.... پانی نہیں لگے گا! دودھ سے صاف کروں گا!

”میں کچھ نہیں جانتی!" صوفیہ بھنا گئی!

عمران نے شلوار اٹھالی جو ابھی کرسی کے ہتھے پر پڑی ہوئی تھی۔

صوفیہ اکتائے ہوئے انداز میں اس کی حرکتیں دیکھتی رہی۔ اس نے ایک بڑے پیائے میں دودھ الٹ کر دھبوں کو ملنا شروع کیا! تھوڑی دیر بعد دھبے صاف ہو گئے صوفیہ کی بڑے بالوں والی ایرانی بلی بار بار پیالے پر جھپٹ رہی تھی! عمران اسے ہٹاتا جاتا تھا! جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکا تو بلی دودھ پر ٹوٹ پڑی۔ اس بار عمران نے اسے نہیں روکا۔

"کیا پانی سے نہیں دھو سکتے تھے آخر آپ کو اپنی بے وقوفی ظاہر کرنے کا اتنا شوق کیوں ہے!“

صوفیہ بولی۔

"ہائیں تو کیا مجھ سے کوئی بے وقوفی سرزد ہوئی ہے؟" عمران نے حیرت کا اظہار کیا۔

”خدا کے لئے بور مت کیجئے!“ صوفیہ نے بیزاری سے کہا!

"آدم نے جب اس درخت کے قریب جانے سے ہچکچاہٹ ظاہر کی تھی حوا نے بھی یہی کہا تھا!“

صوفیہ کچھ نہ بولی!…. اس نے بلی کی طرف دیکھا جو دودھ پیتے پیتے ایک طرف لڑھک گئی تھی!

"ہائیں! یہ اسے کیا ہو گیا۔" وہ اٹھتی ہوئی بولی۔

”کچھ نہیں!" عمران نے بلی کی ٹانگ پکڑ کر اسے ہاتھ میں لٹکا لیا!.

”کیا ہوا اسے!" صوفیہ چیخ کر بولی۔

"کچھ نہیں۔ صرف بیہوش ہو گئی ہے..… اللّٰہ نے چاہا تو صبح سے پہلے ہوش میں نہیں آئے گی۔"

"آخر یہ آپ کر کیا ر ہے ہیں۔ “ صوفیہ کا لہجہ جارحانہ تھا۔

"وہ نقلی پولیس والے! ایک بیہوش لڑکی ہماری گاڑی میں ضرور پاتے! مگر میں اس طرح لٹکا نہ سکتا!"

"کیا؟" صوفیہ آنکھیں پھاڑ کر بولی! "تو یہ دھبے۔۔۔“

"ظاہر ہے کہ وہ امرت دھارا کے دھبے نہیں تھے۔“

"لیکن اس کا مطلب؟“

"تمہارا---- اغوا.... لیکن میں نے ان کی نہیں چلنے دی۔“

"آپ نے جان بوجھ کر گلاس میں ہاتھ مارا تھا۔“

”ہاں!" عمران سر ہلا کر بولا ”کبھی کبھی ایسی حماقت بھی سرزد ہو جاتی ہے۔“

”آپ کو معلوم کیسے ہوا تھا!“

عمران نے ایک نامعلوم آدمی کے ویٹر سے ٹکرانے کی داستان دہراتے ہوئے کہا "میری بائیں آنکھ ہمیشہ کھلی رہتی ہے.... میں نے اسے گلاس میں کچھ ڈالتے دیکھا تھا!“

صوفیه خوفزدہ نظر آنے لگی۔ عمران نے کہا۔

”اوہ - ڈرو نہیں!.... لیکن تمہیں ہر حال میں میرا پابند رہنا پڑے گا!"

صوفیہ کچھ نہ بولی....وہ اس احمق ترین عقلمند آدمی کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔

”اور ہاں دیکھو! اس واقعہ کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا!“ عمران نے بیہوش بلی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ ”عارف اور انور سے بھی نہیں!“

"نہیں کروں گی عمران صاحب! آپ واقعی گریٹ ہیں۔“

"کاش میرے پاپا بھی یہی سمجھتے!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔

تبصرے