چٹانوں میں فائر | 12: کرنل ضرغام کا پُراسرار غیاب: انسپکٹر خالد کی تحقیقات
کرنل ضرغام کا پُراسرار غیاب: انسپکٹر خالد کی تحقیقات
انسپکٹر خالد نے بہت عجلت میں فون کا ریسیور اٹھایا!...
"میں خالد ہوں!" اس نے ماؤتھ ہیں میں کہا۔ "کیا آپ فوراً مجھے وقت دے سکیں گے؟ اوہ شکریہ میں ابھی حاضر ہوا!“
اس نے تیزی سے ریسیور رکھا اور کمرے سے نکل گیا!....
ڈی۔ ایس کے آفس کے اردلی نے اس کے لئے چق اٹھائی اور وہ اندر چلا گیا!....
ڈی ایس نے سر کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا اور پائپ کو دانتوں سے نکال کر آگے جھک آیا۔
"کرنل ضرغام کا معاملہ بہت زیادہ الجھ گیا ہے۔“ خالد بولا۔
"کیوں؟...."
"کوئی نئی بات!“
"جی ہاں اور بہت زیادہ اہم! میں نے کرنل کے نوکروں کو ٹٹولنے کی کوشش کی تھی! آخر ایک نے اگل ہی دیا کرنل کہیں باہر نہیں گیا بلکہ یک بیک غائب ہو گیا ہے۔"
"خوب!" ڈی ایس نے پاپ ایش ٹرے میں اتنے ہوئے کہا اور خالد کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
”وہ اپنے مہمانوں کے استقبال کے لئے تنہا اسٹیشن گیا تھا! پھر واپس نہیں آیا“
"واہ!" ڈی ایس انگلی سے میز کھنکھناتا ہوا کچھ سوچنے لگا پھر اس نے کہا۔ "اس کے گھر والوں کو تو بڑی تشویش ہو گی۔“
"قطعی نہیں! یہی تو حیرت کی بات ہے۔"
"آہم!“ ڈی۔ ایس نے پیر پھیلا کر طویل انگڑائی لی.... اور کرسی کی پشت سے ٹک گیا۔
”پھر تمہارا کیا خیال ہے۔“ ڈی ایس نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
"میں ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔"
"واہ یہ بھی کیا کوئی مشکل مسئلہ ہے!" ڈی ایس مسکرایا.... "کرنل ضرغام بھی شفٹن کی دھمکیوں سے نہ بچا ہو گا…. لیکن وہ غائب ہو گیا…. اس نے پولیس کو اطلاع نہیں دی! دوسروں نے پولیس کو اطلاع دی تھی اور وہ سب موجود ہیں اس لائن پر سوچنے کی کوشش کرو۔“
"میں سوچ چکا ہوں!“
"اور پھر بھی کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچے۔“
"جی نہیں!“
"کمال ہے!…. ارے بھئی یہ تو ایک بہت ہی واضح قسم کا اشارہ ہے۔"
"آپ ہی رہنمائی کیجئے!…. میں تو ابھی بقول شخصے مبتدی ہوں!.... آپ ہی سے سیکھنا ہے مجھے۔“ خالد نے کہا۔
"دیکھو!... تم دو ایسے آدمیوں کے نام دھمکی کے خطوط لکھو جن میں سے ایک تم سے واقف ہو اور دوسرا ناواقف!…. فرض کرو تم اپنی موجودہ حیثیت میں دونوں کو لکھتے ہو کہ وہ خطرے میں ہیں اور کسی وقت بھی گرفتار کئے جاسکتے ہیں! وہ شخص جو تمہیں نہیں جانتا اسے مذاق مجھے گا۔ یہی سوچے گا کہ کسی نے اسے بیوقوف بنایا ہے! لیکن اس شخص پر اس کا کیا اثر ہو گا جو تم سے اور تمہارے عہدے سے بخوبی واقف ہے!“
"بد حواس ہو جائے گا۔“ خالد بولا۔
"ٹھیک! اسی طرح شفٹن کے معاملہ کو لے لو.... ہمارے لئے بھی یہ نام نیا ہے! چہ جائیکہ وہ لوگ جنہیں خطوط موصول ہوئے ہیں!.... کرنل ہمارے پاس شکایت لے کر نہیں آیا! اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ شفٹن سے واقف ہے اور اس طرح غائب ہو جانے کے یہ معنی ہوئے کہ شفثن انتہائی خطرناک ہے!.... اتنا خطرناک کہ پولیس بھی اس کا کچھ نہیں کر سکتی!"
”میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں کرنل ضرغام ہی شفٹن نہ ہو!" خالد نے کہا۔
"اگر وہ شفٹن ہی ہے تو اس کے احمق ہونے میں کوئی شبہ نہیں!“ ڈی۔ایس بولا۔
”اگر وہ شفٹن ہی ہے تو اسے ہمارے پاس ضرور آنا چاہئے تھا!.... نہیں.... خالد وہ شفٹن نہیں ہے۔ ورنہ اس طرح غائب نہ ہوتا!“
”تو پھر اب مجھے کیا کرنا چاہیئے!“
"کرنل ضرغام کو تلاش کرو۔“
کچھ دیر خاموشی رہی پھر ڈی۔ایس نے پوچھا۔ ”عمران کا کیا رہا۔“
"کچھ نہیں! اس کی شخصیت بھی بڑی پر اسرار ہے۔“
ڈی۔ ایس ہنسنے لگا! پھر اس نے کہا "کیپٹن فیاض نے میرے تار کا جواب دیا ہے! عمران کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ وہ ایک پرلے سرے کا احمق آدمی ہے۔ فیاض کا دوست ہے۔ یہاں تفریحاً آیا ہے! اکثر حماقتوں کے سلسلے میں مصیبتیں مول لے بیٹھتا ہے اس لئے فیاض نے مجھے خط لکھ دیا تھا کہ اگر ایسی کوئی بات ہو تو اس کی مدد کی جائے!“
"مگر صاحب! وہ کرنل ضرغام کا پرائیویٹ سیکر ٹری کیسے ہو گیا۔“
”مجھے بھی فیاض کی کہانی پر یقین نہیں!“ ڈی۔ ایس نے کہا! "یہ فیڈرل والے کبھی کھل کر کوئی بات نہیں بتاتے!“
اس کے بعد کمرے میں گہری خاموشی مسلط ہو گئی!
مہمانوں کی وجہ سے عارف اور انور کو ایک ہی کمرے میں رہنا پڑتا تھا!…. یہ کمرہ صوفیہ کے کمرے سے ملا ہوا تھا اور درمیان میں صرف ایک دروازہ حائل تھا!
عمران نے عارف کے سامنے ایک تجویز پیش کی!.... اسے یقین تھا کہ عارف فوراً تیار ہو جائے گا۔ تجویز یہ تھی کہ عارف عمران کے کمرے میں چلا جائے اور عمران عارف کی جگہ انور کے ساتھ رہنا شروع کر دے۔ عارف اس تجویز پر کھل اٹھا۔ کیونکہ عمران کا کمرہ مارتھا کے کمرے کے برابر تھا انور کو اس تبدیلی پر بڑی حیرت ہوئی اور ساتھ ہی افسوس بھی! وہ سوچ رہا تھا کہ کاش عمران نے اپنی جگہ اسے بھیجا ہوتا.....
"آخر آپ نے وہ کمرہ کیوں چھوڑ دیا۔“ انور نے اس سے پوچھا۔
"ارے بھئی.... کیا بتاؤں! بڑے ڈراؤنے خواب آنے لگے تھے" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
"ڈراؤنے خواب!“ انور نے حیرت کا اظہار کیا۔
"آہا! کیوں نہیں!…. مجھے انگریز لڑکیوں سے بڑا خوف معلوم ہوتا ہے۔“
انور بنسنے لگا لیکن عمران کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا!
تھوڑی دیر بعد انور نے کہا۔ "لیکن آپ نے عارف کو وہاں بھیج کر اچھا نہیں کیا!"
"اچھا تو تم چلے جاؤ۔"
"میرا.... یہ مطلب نہیں!" انور ہکلایا۔
"پھر کیا مطلب ہے۔"
"عارف کوئی کام سوچ سمجھ کر نہیں کرتا۔“
"ہائیں! تو کیا میں نے اسے وہاں کوئی کام کرنے کے لئے بھیجا ہے۔“
"مطلب یہ نہیں۔۔ بات یہ ہے….."
"تو وہی بات بتاؤ----بتاؤ نا۔“
"کہیں وہ کوئی حرکت نہ کر بیٹھے۔“
"کیسی حرکت!" عمران کی آنکھیں اور زیادہ پھیل گئیں۔
"اوہ آپ سمجھے ہی نہیں یا پھر بن رہے ہیں! میرا مطلب ہے کہ کہیں وہ اس پر ڈورے نہ ڈالے۔“
"اوہ سمجھا!" عمران نے سنجیدگی سے سر ہلا کر کہا۔ "مگر ڈورے ڈالنے میں کیا نقصان ہے! فکر کی بات تو اس وقت تھی جب وہ رسیاں ڈالتا۔"
"ڈورے ڈالنا محاورہ ہے عمران صاحب!" انور جھلاہٹ میں اپنی ران پیٹ کر بولا۔
"میں نہیں سمجھا!" عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔
"اف فوہ! میرا مطلب ہے کہ کہیں وہ اسے پھانس نہ لے!"
"لا حول ولا قوة--- تو پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔" عمران نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”کہاں چلے!“
”ذرا مارتھا کو ہوشیار کر دوں!"
"کمال کرتے ہیں آپ بھی!“ انور بھی کھڑا ہو گیا! "عجیب بات ہے!“
"پھر تم کیا چاہتے ہو!"
"کچھ بھی نہیں!" انور اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔
"یار تم اپنے دماغ کا علاج کرو!" عمران بیٹھتا ہوا ناراضگی کے لہجے میں بولا۔
”جب کچھ بھی نہیں تھا تو تم نے میرا اتنا وقت کیوں برباد کرایا؟"
”چلئے سو جائے!" انور پلنگ پر گرتا ہوا بولا۔ ”آپ سے خدا سمجھے۔“
"نہیں بلکہ تم سے خدا سمجھے اور پھر مجھے اردو میں سمجھائے۔ تمہاری باتیں تو میرے پہلے ہی نہیں پڑتیں۔“
انور نے چادر سر تک گھسیٹ لی۔
عمران بدستور آرام کرسی پر پڑا رہا.... انور نے سونے کی کوشش شروع کر دی تھی لیکن ایسے میں نیند کہاں! اسے یہ سوچ سوچ کر کوفت ہو رہی تھی کہ عارف مارتھا کو لطیفے سنا سنا کر ہنسا رہا ہو گا۔
مارتھا خود بھی بڑی باتونی تھی اور بکواس کرنے والے اسے پسند تھے!... انور میں سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ جس لڑکی کے متعلق زیادہ سوچتا تھا اس سے کھل کر بات نہیں کر سکتا تھا!
آج کل مارتھا ہر وقت اس کے ذہن پر چھائی رہتی تھی اس لئے وہ اس سے گفتگو کرتے وقت ہکلاتا ضرور تھا! اس نے عمران کی طرف کروٹ بدلتے وقت چادر چہرے سے ہٹادی!
"آخر کرنل صاحب کہاں گئے؟“ اس نے عمران سے پوچھا۔
"آہا۔۔۔ بہت دیر میں چونکے!" عمران نے مسکرا کر کہا۔ “میرا خیال ہے کہ انہیں کوئی حادثہ پیش آگیا!"
"کیا؟" انور اچھل کر بیٹھ گیا!...
"اوہو! فکر نہ کرو! حادثہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمہیں پریشان ہونا پڑے۔“
"دیکھئے عمران صاحب! اب یہ معاملہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے! میں کل صبح کسی بات کی پرواہ کئے بغیر کرنل صاحب کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرادوں گا۔“
عمران کچھ نہ بولا! وہ کسی گہری سوچ میں تھا!... انور بڑبڑاتا رہا۔
"کرنل صاحب! بوڑھے ہو گئے ہیں! مجھے تو اب ان کے صحیح الدماغ ہونے میں بھی شبہ ہے۔"
"ہاں! اچھا تو وہ رپورٹ کیا ہو گی؟“ اس نے پوچھا۔
"یہی کہ کرنل صاحب کسی نا معلوم آدمی یا گروہ سے خائف تھے اور اچانک غائب ہو گئے۔“
"
"ہوں! اور رپورٹ کرنے میں تاخیر کی وجہ کیا بتاؤ گے!“
"یہ بھی بڑی بات نہیں! کہہ دوں گا کہ کرنل صاحب کے خوف کی وجہ سے حیص بیص میں تاخیر ہوئی! وہ پولیس کو رپورٹ دینے کے خلاف تھے۔"
"ٹھیک ہے" عمران نے کہا۔ تھوڑی دیر کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ "ضرور رپورٹ کر دو۔“
انور متحیر انہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"لیکن!" عمران نے کہا۔ "تم میرے متعلق ہر گز کچھ نہ کہو گے! سمجھے! میں صرف کرنل کا پرائیویٹ سیکرٹری ہوں۔“
”کیا آپ اس وقت سنجیدہ ہیں۔"
”میں غیر سنجیدہ کب رہتا ہوں۔“
"آخر اب آپ رپورٹ کے حق میں کیوں ہو گئے۔"
"ضرورت!.... حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔“
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔“
"ہا!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "میں ایک چھوٹا سا بنگلہ بنوانا چاہتا ہوں! ایک خوبصورت سی بیوی چاہتا ہوں اور ڈیڑھ درجن بچے!"
انور پھر جھلا کر لیٹ گیا اور چادر کھینچ لی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں