چٹانوں میں فائر | 10: انسپکٹر کی تفتیش

 انسپکٹر کی تفتیش

Chapter 10 Feature Image

رات کے کھانے پر میز کی فضا بڑی سوگوار رہی! انہوں نے بڑی خاموشی سے کھانا ختم کیا اور پھر کافی پینے کے لئے برآمدے میں جا بیٹھے۔

"صوفی۔" کرنل ڈکسن بولا۔ ”میں کہتا ہوں کہ پولیس کو اس کی اطلاع ضرور دینی چاہئے!۔۔“

"میری بھی یہی رائے ہے۔" بار توش نے کہا.... وہ بہت کم ہولتا تھا۔

"میں کیا کروں۔۔!" صوفیہ نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”ڈیڈی اس معاملہ کو عام نہیں کرنا چاہتے!... پولیس کے تو سرے سے خلاف ہیں!.... انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ اگر میں کبھی اچانک غائب ہو جاؤں تو تم لوگ فکر مند مت ہونا.... میں خطرہ دور ہوتے ہی واپس آجاؤں گا لیکن پولیس کو اس کی اطلاع ہرگز نہ ہو!"

عمران نے صوفیہ کی طرف تعریفی نظروں سے دیکھا۔

"ضرغام ہمیشہ پر اسرار رہا ہے!" کرنل ڈکسن بڑبڑایا۔

”یہاں سب ہی پر اسرار ہیں۔" عمران نے کہا اور مارتھا کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگا۔

"میں سچ کہتا ہوں کہ تمہیں ابھی تک نہیں سمجھ سکا۔" کرنل نے عمران سے کہا! "مجھے حیرت ہے کہ ضرغام نے تمہیں اپنا سیکرٹری کیسے بنا رکھا ہے۔ وہ تو بہت ہی غصہ ور ہے!"

"میں انہیں کنفیوشس کے اقوال سنایا کرتا ہوں۔" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔

"تم نے پھر اس کا نام لیا! کیا تم مجھے چڑاتے ہو!" کرنل بپھر گیا۔

"نہیں انکل!" صوفیہ جلدی سے بولی۔ "یہ ان کی عادت ہے۔"

"گندی عادت ہے!“

عمران لاپروائی سے کافی پیتا رہا!

"یہ ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی ہیں!“ عارف ہنس کر بولا۔

"پھر تم نے بکواس شروع کی!" انور نے دانت پیس کر کہا۔

"بولنے دو میں برا نہیں مانتا کنفیوش.... ارر... نہیں ہپ!“ عمران نے کہا اور بوکھلاہٹ کی ایکٹنگ کے ساتھ اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے بند کر لیا۔ مار تھا اور صوفیہ ہنس پڑیں! اس بار کرنل بھی ہنسنے لگا! بارتوش کا چہرہ بنجر کا بنجر ہی رہا! خفیف سی مسکراہٹ کی جھلک بھی نہ دکھائی دی۔

دفعتاً انہوں نے پھاٹک پر قدموں کی آواز سنی! آنے والا ادھر ہی آرہا تھا۔ وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑنے لگے! باغ کے آخری سرے پر کافی اندھیرا تھا برآمدے میں لگے ہوئے بلبوں کی روشنی وہاں تک نہیں پہنچتی تھی۔ پھر آنے والے کی ٹانگیں دکھائی دینے لگیں! کیونکہ اس نے راستہ دیکھنے کے لئے ایک چھوٹی سی ٹارچ روشن کر رکھی تھی آنے والا روشنی میں آ گیا.... وہ ان سب کے لئے اجنبی ہی تھا! ایک تنومند آدمی جس نے کتھئی سرج کا سوٹ پہن رکھا تھا!

”معاف کیجئے گا۔“ اس نے برآمدے کے قریب آکر کہا۔ ”شائد میں مخل ہوا۔ کیا کرنل صاحب تشریف رکھتے ہیں۔“

”جی نہیں!“ صوفیہ جلدی سے بولی۔ ”تشریف لائیے۔“

آنے والا ایک کرسی پر بیٹھ گیا! صوفیہ بولی۔

"وہ باہر گئے ہیں!"

"کب تک تشریف لائیں گے۔"

"کچھ کہا نہیں جا سکتا! ہو سکتا ہے کل آجائیں.... ہو سکتا ہے ایک ہفتہ کے بعد!"

"اوہ.... یہ تو برا ہوا۔" اجنبی نے کہا اور اچنتی ہی نظریں حاضرین پر ڈالی! عمران کو دیکھ کر ایک لحظہ اس پر نظر جمائے رہا پھر بولا۔ ”کہاں گئے ہیں۔“

"افسوس کہ وہ اپنا پروگرام کسی کو نہیں بتاتے۔" صوفیہ نے کہا۔ "آپ اپنا کارڈ چھوڑ جائیے۔ آتے ہی ان سے تذکرہ کر دیا جائے گا۔"

"بہت جلدی کا کام ہے۔" اجنبی نے افسوس ظاہر کیا۔

"آپ وہ کام مجھ سے کہہ سکتے ہیں!" عمران بولا۔ "میں کرنل کا پرائیویٹ سیکرٹری ہوں"

"اوہ!" اجنبی نے حیرت کا اظہار کیا پھر سنبھل کر بولا۔ "تب تو ٹھیک ہے ! کیا آپ الگ تھوڑی سی تکلیف کریں گے؟“

”بس اتنا ہی سا کام تھا؟" عمران نے احمقوں کی طرح کہا! "لیکن میں الگ تھوڑی سی تکلیف کا مطلب نہیں سمجھ سکا! اور تکلیف کس قسم کی ہوگی۔ گلا تو نہ گھونٹوانا ہو گا۔"

"اوہ میرا مطلب ہے ذرا الگ چلیں گے!"

"میں الگ ہی چلتا ہوں! آج تک کسی سے ٹانگ باندھ کر نہیں چلا۔"

"ارے صاحب! کہنے کا مطلب یہ کہ ذرا میرے ساتھ آئیے!"

”اوہ تو پہلے کیوں نہیں کہا۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا ”چلئے چلئے۔“

وہ دونوں اٹھ کر باغ کے پھاٹک پر آگئے۔

"آپ علی عمران صاحب ہیں!" اجنبی نے پوچھا۔

”میں کرنل کا سیکرٹری ہوں۔“

"وہ تو ٹھیک ہے!... دیکھئے میرا تعلق محکمہ سراغرسانی سے ہے اور خالد نام، ہمیں فیڈرل ڈیپارٹمنٹ کے کیپٹن فیاض کی طرف سے ہدایت ملی ہے کہ ہم آپ کی ہر طرح مدد کریں۔"

"اوه.... فیاض ہاہا.... بڑا گریٹ آدمی ہے اور یاروں کا یار ہے!.... مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ اتنی سی بات کے لئے اپنے محکمہ تک کے آدمیوں کو خطوط لکھ دے گا واہ بھئی!"

"بات کیا ہے؟" انسیکٹر خالد نے پوچھا۔

"کیا اس نے.... وہ بات نہیں لکھی۔“

”جی نہیں۔۔۔۔!“

"لکھتا ہی کیا! بات یہ ہے مسٹر خالد کہ مجھے بٹیر کھانے اور بٹیر لڑانے دونوں کا شوق ہے اور آپ کے یہاں بٹیروں کے شکار پر پابندی ہے فیاض نے کہا تھا کہ میں اجازت دلوادوں گا!"

خالد چند لمحے حیرت سے عمران کو دیکھتا رہا پھر بولا۔ ”آپ نے یہ کیوں کہا تھا کہ آپ کرنل کے سیکر ٹری ہیں۔“

"پھر کیا کہتا۔۔! وہ شائد آپ کو اس کے کہنے پر دوسری حیثیت سے اعتراض ہے۔ بالکل ٹھیک مسٹر خالد! بات دراصل یہ ہے کہ میں یہاں آیا تھا مہمان ہی کی حیثیت سے لیکن بعد کو نوکری مل گئی!۔۔۔ کرنل نے مجھے بے حد پسند کیا ہے! میں ان کے لیئے دن بھر ائیرگن سے مکھیاں مارتا رہتا ہوں۔"

"آپ مجھے ٹال رہے ہیں جناب" خالد ہنس کر بولا.... پھر اس نے سنجیدگی سے کہا۔ "حالانکہ یہ معاملہ بہت اہم ہے۔"

"کیسا معاملہ۔“ عمران نے حیرت سے کہا۔

"کچھ بھی ہو! آپ بہت گہرے آدمی معلوم ہوتے ہیں.... اس کا مجھے یقین ہے کہ آپ کیپٹین فیاض کے خاص آدمیوں میں سے ہیں! اچھا چلئے میں آپ سے صرف ایک سوال کروں گا۔“

"ضرور کیجئے!“

"کیا! کرنل نے براہِ راست فیڈرل ڈیپارٹمنٹ سے مدد طلب کی تھی۔“

عمران چونک کر اسے گھور نے لگا۔

"مدد! میں نہیں سمجھا۔“ اس نے کہا۔

”دیکھئے جناب!“ خالد نے کہا۔ ”ہو سکتا ہے کہ آپ اس محکمہ میں بہت دنوں سے ہوں! لیکن میں ابھی بالکل اناڑی ہوں۔ یقیناً آپ مجھ سے سینئر ہی ہوں گے!.... اس لئے میں آپ کے مقابلہ کا اہل نہیں ہو سکتا!... لہذا اب کھل کر بات کیجئے تو شکر گذار ہوں گا!"

"اچھا میں کھل کر بات کروں گا لیکن پہلے مجھے بات کی نوعیت سمجھنے دیجئے آپ کے ذہن میں کرنل کے متعلق کیا ہے!“

"کچھ نہیں! لیکن ایک بات۔" خالد کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ”ٹھہرئیے! میں بتاتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ آپ سوناگری میں نووارد ہیں! ہم لوگ پچھلے ایک ماہ سے ایک پر اسرار آدمی یا گروہ شفٹن نامی کی تلاش میں ہیں جس نے یہاں کے دولتمند لوگوں کو دھمکی کے خطوط لکھے ہیں! ان سے بڑی رقموں کا مطالبہ کیا ہے! دھمکی کے مطابق عدم ادائیگی کی صورت میں انہیں قتل کر دیا جائے گا…. ہاں تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے اس کی رپورٹ کی ہے…. مگر…."

"مگر کیا؟" عمران جلدی سے بولا۔

"ہمیں کرنل ضرغام کی طرف سے اس قسم کی کوئی شکایت نہیں موصول ہوئی۔"

"تو آپ زبردستی شکایت موصول کرانا چاہتے ہیں۔" عمران ہنس پڑا۔

"اوہ۔ دیکھئے! آپ سمجھے نہیں !بات یہ ہے کہ آخر کرنل کو کیوں چھوڑا گیا اور اگر اسی طرح کی اگر اسی طرح کی کوئی دھمکی اسے ملی ہے تو اس نے اسکی رپورٹ کیوں نہیں کی!"

"واقعی آپ بہت گہرے آدمی معلوم ہوتے ہیں!" عمران نے طنزیہ لہجے میں کہا!

"اچھا چلئے۔ فرض کیجئے کہ کرنل کو بھی دھمکی کا خط ملا.... تو کیا یہ ضروری ہے کہ آپ کے محکمہ کو اس کی اطلاع دے! ممکن ہے وہ اسے مذاق سمجھا ہو۔ اور مذاق نہ بھی سمجھا ہو تو کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی قوت بازو کے علاوہ اور کسی پر بھروسہ نہیں ہوتا!“

"میں صرف اتنا معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کرنل کو بھی اس قسم کا کوئی خط ملا ہے یا نہیں!"

"میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا!" عمران بولا! "مجھے اس کا علم ہی نہیں!"

"آپ کو کیپٹن فیاض نے یہاں کیوں بھیجا ہے۔“

"میری کھوپڑی کا مغز درمیان سے کریک ہو گیا ہے.... اس لئے گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا ہی مجھے راس آتی ہے!"

"اوہ! آپ کچھ نہیں بتائیں گے خیر....اچھا....اس تکلیف کا بہت بہت شکریہ! مجھے کرنل کی واپسی ہی کا منتظر رہنا پڑے گا۔“

"ویسے ہم پھر بھی ملتے رہیں گے!" عمران نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

"اوه... ضرور... ضرور!" خالد نے کہا اور مصافحہ کر کے رخصت ہو گیا!.

عمران پھر برآمدے میں لوٹ آیا۔ یہاں سب لوگ بےچینی سے اس کی واپسی کے منتظر تھے۔

"کون تھا!" صوفیہ نے پوچھا۔

"محکمہ سراغرسانی کا انسپکٹر خالد!"

"کیا!" کرنل ڈکسن نے حیرت کا اظہار کیا۔

"کیا بات تھی!" صوفیہ نے مضطربانہ لہجے میں کہا۔

اس پر عمران نے پوری بات دہرادی....وہ سب حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔

اس نے صوفیہ سے پوچھا۔ "کیا کرنل کو شفٹن کی طرف سے کبھی کوئی خط ملا ہے۔"

"نہیں۔"

"یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ آخر انہوں نے اپنے عزیز از جان سیکرٹری سے اس کا تذکرہ کیوں نہیں کیا!"

"تم نے دوسرے معاملہ کا تذکرہ نہیں کیا؟" کرنل ڈکسن نے پوچھا۔

"ہرگز نہیں! بھلا کس طرح کر سکتا تھا۔“

"تم واقعی کر یک معلوم ہوتے ہو۔“

"جی ہاں۔۔! کنفیوشس .... ار نہیں میرا اپنا قول ہے کہ اچھا ملازم وہی ہے جو مالک کے حکم سے ایک انچ ادھر نہ ایک انچ اُدھر!"

"جہنم میں جاؤ۔" کرنل غرا کر بولا اور وہاں سے اٹھ گیا۔

تبصرے