8: پاگل پن کی ایک رات

پاگل پن کی ایک رات



Chapter 8 Feature Image

لیڈی جہانگیر نے قہقہہ لگایا۔

"وہ اس لئے تاریک چشمہ لگاتی ہے کہ اس کی ایک آنکھ غائب ہے۔“

"ہائیں...." عمران اچھل پڑا ۔

”اور غالبا اسی بناء پر تمہارے گھر والوں نے یہ رشتہ منظور نہیں کیا۔“

"تم اسے جانتی ہو!" عمران نے پوچھا!

"اچھی طرح سے! اور آج کل میں اسے بہت خوبصورت آدمی کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ غالباً وہ بھی تمہاری ہی طرح احمق ہو گا۔“

"کون ہے وہ میں اس کی گردن توڑ دوں گا۔" عمران بپھر کر بولا۔ پھر اچانک چونک کر خود ہی بڑ بڑانے لگا۔ ”لا حول ولا قوة....بھلا مجھ سے کیا مطلب!"

"بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ انتہائی خوبصورت نوجوان ایک کانی لڑکی سے شادی کرلے۔“

"واقعی وہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہو گا۔“ عمران نے کہا۔ "کیا میں اسے جانتا ہوں۔“

”پتہ نہیں! کم از کم میں تو نہیں جانتی۔ اور جسے میں نہ جانتی ہوں وہ اس شہر کے کسی اعلیٰ خاندان کا فرد نہیں ہو سکتا۔“

"کب سے دیکھ رہی ہوا سے۔“

”یہی کوئی پندرہ بیس دن سے۔“

"کیا وہ یہاں بھی آتے ہیں۔“

"نہیں....میں نے انہیں کیفے کا مینو میں اکثر دیکھا ہے۔“

”مرزا غالب نے ٹھیک ہی کہا ہے۔“

'ناله سرمایه یک عالم و عالم کف خاک

 آسمان بیضہ قمری نظر آتا ہے مجھے'

"مطلب کیا ہوا۔" لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔

” پتہ نہیں!" عمران نے بڑی معصومیت سے کہا اور پرخیال انداز میں میز پر طبلہ بجانے لگا۔

"صبح تک بارش ضرور ہو گی۔" لیڈی جہانگیر انگڑائی لے کر بولی۔

"سر جہانگیر آج کل نظر نہیں آتے۔" عمران نے کہا۔

"ایک ماہ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں۔“

"گڈ۔" عمران مسکرا کر بولا۔

”کیوں۔" لیڈی جہانگیر اسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگی۔

"کچھ نہیں۔ کنفیوشس نے کہا ہے....."

"مت بور کرو۔" لیڈی جہانگیر چڑ کر بولی۔

”ویسے....بائی دی دے....کیا تمہارا رات بھر کا پروگرام ہے۔"

”نہیں ایسا تو نہیں....کیوں؟“

"میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر رونا چاہتا ہوں۔“

"تم بالکل گدھے ہو بلکہ گڑھے سے بھی بدتر ۔“

"میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں....کیا تم مجھے اپنی چھت کے نیچے رونے کا موقع دو گی۔ کنفیوشس نے کہا ہے...."

"عمران....پلیز....شٹ اپ۔"

"لیڈی جہا نگیر میں ایک لنڈورے مرغ کی طرح اداس ہوں۔"

”چلواٹھوا لیکن اپنے کنفیوشس کو یہیں چھوڑ چلو۔ بوریت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔“

تقریباً آدھ گھنٹے بعد عمران لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں کھڑا اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا لیڈی جہانگیر کے جسم پر صرف شب خوابی کا لبادہ تھا۔ وہ انگڑائی لے کر مسکرانے لگی۔

"کیا سوچ رہے ہو۔“ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔

"میں سوچ رہا تھا کہ آخر کسی مثلث کے تینوں زاویوں کا مجموعہ دو زاویہ قائمہ کے برابر کیوں ہوتا ہے۔"

"پھر بکواس شروع کر دی تم نے۔" لیڈی جہانگیر کی نشیلی آنکھوں میں جھلاہٹ جھانکنے لگی۔

"مائی ڈیئر لیڈی جہا نگیر! اگر میں یہ ثابت کر دوں کہ زاویہ قائمہ کوئی چیز ہی نہیں ہے تو دنیا کا بہت بڑا آدمی ہو سکتا ہوں۔“

"جہنم میں جاسکتے ہو!“ لیڈی جہانگیر برا سا منہ بنا کر بڑ بڑائی۔

"جہنم! کیا تمہیں جہنم پر یقین ہے۔“

”عمران میں تمہیں دھکے دے کر نکال دوں گی۔“

"لیڈی جہانگیر! مجھے نیند آرہی ہے۔“

”سر جہانگیر کی خواب گاہ میں ان کا سلیپنگ سوٹ ہوگا....پہن لو۔“

"شکریہ!....خواب گاہ کدھر ہے۔“

"سامنے والا کمرہ!" لیڈی جہانگیر نے کہا اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔

عمران نے سر جہانگیر کی خواب گاہ میں گھس کر اندر سے دروازہ بند کر لیا لیڈی جہانگیر ٹہلتی رہی! دس منٹ گزر گئے! آخر وہ جھنجھلا کر سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آئی۔ دھکا دیا لیکن اندر سے چٹخنی چڑھا دی گئی تھی۔

"کیا کرنے لگے عمران!" اس نے دروازے تھپتھپانا شروع کر دیا لیکن جواب ندارد۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے عمران خراٹے بھر رہا ہو اس نے دروازے سے کان لگادیے۔ حقیقتاً وہ خراٹوں ہی کی آواز تھی۔

پھر دوسرے لمحے میں وہ ایک کرسی پر کھڑی ہو کر دروازے کے اوپری شیشہ سے کمرے کے اندر جھانک رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ عمران کپڑے جوتوں سمیت سر جہانگیر کے پلنگ پر پڑا خراٹے لے رہا ہے اور اس نے بجلی بھی نہیں بجھائی تھی۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دائرہ کی شکل میں سکوڑے عمران کو کسی بھو کی بلی کی طرح گھور رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ مار کر دروازے کا ایک شیشہ توڑ دیا....نوکر شائد شاگرد پیشے میں سوئے ہوئے تھے۔ ورنہ شیشے کے چھناکے ان میں سے ایک آدھ کو ضرور جگا دیتے ویسے یہ اور بات ہے کہ عمران کی نیند پر ان کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پڑا ہو۔

لیڈی جہانگیر نے اندر ہاتھ ڈال کر چٹخنی نیچے گرادی! نشے میں تو تھی ہی! جسم کا پورا زور دروازے پر دے رکھا تھا! چٹخنی گرتے ہی دونوں پٹ کھل گئے اور وہ کرسی سمیت خواب گاہ میںجاگری.....

عمران نے غنودہ آواز میں کراہ کر کروٹ بدلی اور بڑ بڑانے لگا.... ”ہاں ہاں سنتھیلک گیس کی بو کچھ میٹھی میٹھی سی ہوتی ہے.....؟"

پتہ نہیں وہ جاگ رہا تھا یا خواب میں بڑبڑایا تھا۔

لیڈی جہانگیر فرش پر بیٹھی اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر بسور رہی تھی! دو تین منٹ بعد وہ اٹھی اور عمران پر ٹوٹ پڑی۔

"سور کمینے....یہ تمہارے باپ کا گھر ہے؟....اٹھو....نکلو یہاں سے۔“ وہ اسے بری طرح جھنجھوڑ رہی تھی۔ عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔

"ہائیں! کیا سب بھاگ گئے...."

"دور ہو جاؤ یہاں سے۔" لیڈی جہانگیر نے اس کا کالر پکڑ کر جھٹکا مارا۔

"ہاں۔ ہاں....سب ٹھیک ہے!" عمران اپنا گریبان چھڑا کر پھر لیٹ گیا۔

اس بار لیڈی جہانگیر نے بالوں سے پکڑ کر اسے اٹھایا۔

"ہائیں....کیا ابھی نہیں گیا؟" عمران جھلا کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے ہی قد آدم آئینہ رکھا ہوا تھا۔

"اوہ تو آپ ہیں۔“ وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بولا....پھر اس طرح مکا بنا کر اٹھا جیسے اس پر حملے کرے گا....اس طرح آہستہ آہستہ آئینے کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہو۔ پھر اچانک سامنے سے ہٹ کر ایک کنارے پر چلنے لگا! آئینے کے قریب پہنچ کر دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا....لیڈی جہانگیر کی طرف دیکھ اس طرح ہونٹوں پر انگلی رکھ لی جیسے وہ آئینے کے قریب نہیں بلکہ کسی دروازہ سے لگا کھڑا ہو اور اس بات کا منتظر ہو کہ جیسے ہی دشمن دروازے میں قدم رکھے گا وہ اس پر حملہ کر بیٹھے گا۔ لیڈی جہا نگیر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حرکت دیکھ رہی تھی....لیکن اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی عمران نے پینترہ بدل کر آئینہ پر ایک گھونسہ رسید ہی کر دیا....ہاتھ میں جو چوٹ لگی تو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ یک بیک ہوش میں آگیا ہو۔

"لا حول ولا قوۃ۔“ وہ آنکھیں مل کر بولا اور کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا!

اور پھر لیڈی جہانگیر کو بھی ہنسی آگئی....لیکن وہ جلد ہی سنجیدہ ہو گئی۔

"تم یہاں کیوں آئے تھے؟“

"اوہ! میں شائد بھول گیا....شائد اداس تھا....لیڈی جہانگیر تم بہت اچھی ہوا میں رونا چاہتا ہوں"

"اپنے باپ کی قبر پر رونا.....نکل جاؤ یہاں سے!“

"لیڈی جہانگیر....کنفیوشس....!"

"شٹ اپ!" لیڈی جہا نگیر اتنے زور سے چیخی کہ اس کی آواز بھرا گئی۔

"بہت بہتر!" عمران سعادت مندانہ انداز میں سر ہلا کر بولا! گویا لیڈی جہانگیر نے بہت سنجیدگی اور نرمی سے اسے کوئی نصیحت کی تھی۔

”یہاں سے چلے جاؤ!“

"بہت اچھا۔“ عمران نے کہا اور اس کمرے سے لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں چلا آیا۔

وہ اس کی مسہری پر بیٹھنے ہی جارہا تھا کہ لیڈی جہانگیر طوفان کی طرح اس کے سر پر پہنچ گئی۔

"اب مجبوراً مجھے نوکروں کو جگانا پڑے گا؟“ اس نے کہا۔

"اوہو تم کہاں تکلیف کرو گی۔ میں جگائے دیتا ہوں۔ کوئی خاص کام ہے کیا۔“

”عمران میں تمہیں مار ڈالوں گی؟“ لیڈی جہا نگیر دانت پیس کر بولی۔

"مگر کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا....ورنہ پولیس....خیر میں مرنے کے لئے تیار ہوں؟ اگر چھری تیز نہ ہو تو تیز کر دوں! ریوالور سے مارنے کا ارادہ ہے تو میں اس کی رائے نہ دوں گا! سناٹے میں آواز دور تک پھیلتی ہے۔ البتہ زہر ٹھیک رہے گا۔“

”عمران خدا کے لئے!" لیڈی جہا نگیر بے بسی سے بولی۔

"خدا کیا میں اس کے ادنےٰ غلاموں کے لئے بھی اپنی جان قربان کر سکتا ہوں....جو مزاج یار میں آئے۔“

"تم چاہتے کیا ہو!" لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔

"دو چیزوں میں سے ایک...."

"کیا؟"

”موت یا صرف دو گھنٹے کی نیند!“

”کیا تم گدھے ہو۔“

”مجھ سے پوچھتیں تو میں پہلے ہی بتا دیتا کہ بالکل گدھا ہوں۔“

"جہنم میں جاؤ" لیڈی جہانگیر اور نہ جانے کیا بکتی ہوئی سر جہانگیر کی خواب گاہ میں چلی گئی۔ عمران نے اٹھ کر اندر سے دروازہ بند کیا جوتے اتارے اور کپڑوں سمیت بستر میں گھس گیا۔

تبصرے