7: عمران کی غیر متوقع ملاقاتیں

 عمران کی غیر متوقع ملاقاتیں

Chapter 7 Feature Image

ایک بج گیا تھا....فیاض عمران کو اس کی کوٹھی کے قریب اتار کر چلا گیا پائیں باغ کا دروازہ بند ہو چکا تھا! عمران پھاٹک ہلانے لگا....اونگھتے ہوئے چوکیدار نے ہانک لگائی۔
"پیارے چوکیدار....میں ہوں تمہارا خادم علی عمران ایم ایس سی، پی ایچ ڈی لندن۔“
"کون چھوٹے سرکار۔“ چوکیدار پھاٹک کے قریب آکر بولا۔ ”حضور مشکل ہے۔"
"دنیا کا ہر بڑا آدمی کہہ گیا ہے کہ وہ مشکل ہی نہیں جو آسان ہو جائے۔“
"بڑے سرکار کا حکم ہے کہ پھانک نہ کھولا جائے....اب بتائیے۔"
”بڑے سرکار تک کنفیوشس کا پیغام پہنچادو۔"
"جی سرکار!" چوکیدار بوکھلا کر بولا۔
"ان سے کہہ دو کنفیوشس نے کہا ہے کہ تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے لئے اپنے دروازے کھول دو۔“
”مگر بڑے سرکار نے کہا ہے....."
"ہا....بڑے سرکار....انہیں چین میں پیدا ہونا تھا۔ خیر تم ان تک کنفیوشس کا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا۔“
"میں کیا بتاؤں۔“ چوکیدار کپکپائی ہوئی آواز میں بولا۔ "اب آپ کہاں جائیں گے۔“
"فقیر یہ سہانی رات کسی قبرستان میں بسر کرے گا۔“
”میں آپ کے لئے کیا کروں۔“
"دعائے مغفرت....اچھا ٹاٹا!" عمران چل پڑا....!
اور پھر آدھے گھنٹے بعد وہ ٹپ ٹاٹ نائٹ کلب میں داخل ہو رہا تھا لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہی محکمہ سراغرسانی کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے مڈ بھیڑ ہو گئی جو اس کے باپ کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا۔
"اوہو! صاحبزادے تو تم اب ادھر بھی دکھائی دینے لگے ہو؟“
”جی ہاں! اکثر فلیش کھیلنے کے لئے چلا آتا ہوں۔“ عمران نے سر جھکا کر بڑی سعادتمندی سے کہا۔
"فلیش! تو کیا اب فلیش بھی....؟“
"جی ہاں! کبھی کبھی نشے میں دل چاہتا ہے۔“
"اوه....تو شراب بھی پینے لگے ہو۔“
"وہ کیا عرض کروں--قسم لے لیجئے جو کبھی تنہا پی ہو۔ اکثر شرابی طوائفیں بھی مل جاتی ہیں جو پلائے بغیر مانتیں ہی نہیں....!"
"لا حول ولا قوة....تو تم آج کل رحمن صاحب کا نام اچھال رہے ہو۔“
"اب آپ ہی فرمائیے!" عمران مایوسی سے بولا۔ “جب کوئی شریف لڑکی نہ ملے تو کیا کیا جائے....ویسے قسم لے لیجئے۔ جب کوئی مل جاتی ہے تو میں طوائفوں پر لعنت بھیج کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔“
"شائد رحمٰن صاحب کو اس کی اطلاع نہیں....خیر...."
"اگر ان سے ملاقات ہو تو کنفیوشس کا یہ قول دہرا دیجئے گا کہ جب کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتوں سے ساز باز کر لیتا ہے۔“
ڈپٹی ڈائریکٹر اسے گھورتا ہوا باہر چلا گیا۔
عمران نے سیٹی بجانے والے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر ہال کا جائزہ لیا....اس کی نظریں ایک میز پر رک گئیں۔ جہاں ایک خوبصورت عورت اپنے سامنے پورٹ کی بوتل رکھے بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ گلاس آدھے سے زیادہ خالی تھا۔
عمران اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔
"کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں لیڈی جہانگیر!" وہ قدرے جھک کر بولا۔
"اوہ تم" لیڈی جہا نگیر اپنی داہنی بھوں اٹھا کر بولی "نہیں....ہر گز نہیں۔"
"کوئی بات نہیں!" عمران معصومیت سے مسکرا کر بولا۔ ”کنفیوشس نے کہا تھا....!"
"مجھے کنفیوشس سے کوئی دلچسپی نہیں...." وہ جھنجھلا کر بولی۔
"تو ڈی۔ایچ۔لارنس ہی کا ایک جملہ سن لیجئے۔"
"میں کچھ نہیں سنا چاہتی....تم یہاں سے ہٹ جاؤ۔" لیڈی جہانگیر گلاس اٹھاتی ہوئی بولی۔
"اوہ اس کا خیال کیجئے کہ آپ میری منگیتر بھی رہ چکی ہیں...."
"شٹ اپ۔"
"آپ کی مرضی! میں تو صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ آج صبح ہی سے موسم بہت خوشگوار تھا۔"
وہ مسکرا پڑی۔
"بیٹھ جاؤ!" اس نے کہا اور ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر گئی۔
وہ تھوڑی دیر اپنی نشیلی آنکھیں عمران کے چہرے پر جمائے رہی پھر سگریٹ کا ایک طویل کش لے کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی۔
”میں اب بھی تمہاری ہوں۔“
"مگر....سر جہانگیر!" عمران مایوسی سے بولا۔
"دفن کرو اسے۔“
"ہائیں....تو کیا مر گئے!" عمران گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
لیڈی جہانگیر ہنس پڑی۔
" تمہاری حماقتیں بڑی پیاری ہوتی ہیں۔" وہ اپنی بائیں آنکھ دبا کر بولی اور عمران نے شرما کر سر جھکا لیا۔
"کیا پیو گے!" لیڈی جہانگیر نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
"دہی کی لسی۔“
"دہی کی لسی!....ہی....ہی....ہی.....ہی....شائد تم نشے میں ہو!"
”ٹھہرئیے!" عمران بوکھلا کر بولا۔ ”میں ایک بجے کے بعد صرف کافی پیتا ہوں....چھ بجے شام سے بارہ بجے رات تک رم پیتا ہوں۔"
"رم!" لیڈی جہانگیر منہ سکوڑ کر بولی۔ "تم اپنے ٹیسٹ کے آدمی نہیں معلوم ہوتے رم تو صرف گنوار پیتے ہیں۔“
"نشے میں یہ بھول جاتا ہوں کہ میں گنوار نہیں ہوں۔“
"تم آج کل کیا کر رہے ہو۔“
"صبر!" عمران نے طویل سانس لے کر کہا۔
"تم زندگی کے کسی حصے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔" لیڈی جہانگیر مسکرا کر بولی۔
"اوہ آپ بھی یہی سمجھتی ہیں۔“ عمران کی آواز حد درجہ درد ناک ہو گئی۔
"آخر مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ تم نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔“ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
”میں نے کب انکار کیا تھا۔“ عمران رونی صورت بنا کر بولا۔” میں نے تو آپ کے والد صاحب کو صرف دو تین شعر سنائے تھے....مجھے کیا معلوم تھا کہ انہیں شعر و شاعری سے دلچسپی نہیں۔ ورنہ میں نثر میں گفتگو کرتا۔“
"والد صاحب کی رائے ہے کہ تم پرلے سرے کے احمق اور بد تمیز ہو۔" لیڈی جہانگیر نے کہا۔
"اور چونکہ سر جہانگیر ان کے ہم عمر ہیں....لہذا...."
"شٹ اپ۔" لیڈی جہانگیر بھنا کر بولی۔
“بہر حال میں یو نہی تڑپ تڑپ کر مر جاؤں گا۔" عمران کی آواز پھر درد ناک ہو گئی۔
لیڈی جہانگیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
"کیا واقعی تمہیں افسوس ہے۔“ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
”یہ تم پوچھ رہی ہو؟....اور وہ بھی اس طرح جیسے تمہیں میرے بیان پر شبہ ہو۔" عمران کی آنکھوں میں نہ صرف آنسو چھلک آئے بلکہ بہنے بھی لگے۔
"ارر....نو مائی ڈیئر....عمران ڈارلنگ کیا کر رہے ہو تم!" لیڈی جہانگیر نے اس کی طرف اپنا رومال بڑھا دیا۔
"میں اسی غم میں مر جاؤں گا!" وہ آنسو خشک کرتا ہوا بولا۔
"نہیں۔ تمہیں شادی کر لینی چاہئے۔" لیڈی جہانگیر نے کہا۔ ”اور میں....میں تو ہمیشہ تمہاری ہی رہوں گی۔" وہ دوسرا گلاس لبریز کر رہی تھی۔
"سب یہی کہتے ہیں....کئی جگہ سے رشتے بھی آچکے ہیں....کئی دن ہوئے جسٹس فاروق کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا....گھر والوں نے انکار کر دیا۔ لیکن مجھے وہ رشتہ کچھ کچھ پسند ہے!“
"پسند ہے۔" لیڈی جہانگیر حیرت سے بولی۔ " تم نے ان کی لڑکی کو دیکھا ہے۔"
”ہاں!....وہی نا۔ جو ریٹا ہیورتھ اسٹائل کے بال بناتی ہے اور عموماً تاریک چشمہ لگائے رہتی ہے۔“
"جانتے ہو وہ تاریک چشمہ کیوں لگاتی ہے!" لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
"نہیں!....لیکن اچھی لگتی ہے۔"


تبصرے