9: راز اور جوتے
راز اور جوتے
یہ سوچنا قطعی غلط ہو گا کہ عمران کے قدم یو نہی بلا مقصد ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کی طرف اٹھ گئے تھے۔ اسے پہلے ہی سے اطلاع تھی کہ سر جہانگیر آج کل شہر میں مقیم نہیں ہے اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایسے مواقع پر لیڈی جہانگیر اپنی راتیں کہاں گزارتی ہے۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ لیڈی جہانگیر کسی زمانے میں اس کی منگیتر رہ چکی تھی اور خود عمران کی حماقتوں کے نتیجے میں یہ شادی نہ ہو سکی۔
سر جہانگیر کی عمر تقریباً ساٹھ سال ضرور رہی ہو گی لیکن قویٰ کی مضبوطی کی بناء پر بہت زیادہ بوڑھا نہیں معلوم ہو تا تھا....!
عمران دم سادھے لیٹا رہا....آدھ گھنٹہ گذر گیا!....اس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر خواب گاہ کی روشنی بند کر دی۔ پنجوں کے بل چلتا ہو سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آیا جو اندر سے بند تھا اندر گہری نیلی روشنی تھی! عمران نے دروازے کے شیشے سے اندر جھانکا لیڈی جہانگیر مسہری پر اوندھی پڑی بے خبر سورہی تھی اور اسکے ماتھے سے فاکس ٹیریئر کا سر اس کی کمر پر رکھا ہوا تھا اور وہ بھی سور رہا تھا۔
عمران پہلے کی طرح احتیاط سے چلتا ہوا سر جہانگیر کی لائبریری میں داخل ہوا۔
یہاں اندھیرا تھا! عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کی یہ ایک کافی طویل و عریض کمرہ تھا! چاروں طرف بڑی بڑی الماریاں تھیں اور درمیان میں تین لمبی لمبی میزیں! بہر حال یہ ایک ذاتی اور نجی لائبریری سے زیادہ ایک پبلک ریڈنگ روم معلوم ہو رہا تھا۔
مشرقی سرے پر ایک لکھنے کی بھی میز تھی۔ عمران سیدھا اسی کی طرف گیا جیب سے وہ پرچہ نکالا جو اسے اس خوفناک عمارت میں پر اسرار طریقے پر مرنے والے کے پاس ملا تھا وہ اسے بغور دیکھتا رہا پھر میز پر رکھے ہوئے کاغذات الٹنے پلٹنے لگا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ایک رائٹنگ پیڈ کے لیٹر ہیڈ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دبے ہوئے کاغذ کے سرنامے اور اس میں کوئی فرق نہ تھا۔ دونوں پر یکساں قسم کے نشانات تھے اور یہ نشانات سر جہانگیر کے آباؤ اجداد کے کارناموں کی یاد گار تھے جو انہوں نے مغلیہ دور حکومت میں سر انجام دیئے تھے سر جہا نگیر ان نشانات کو اب تک استعمال کر رہا تھا! اس کے کاغذات پر اس کے نام کی بجائے عموماً یہی نشانات چھپے ہوئے تھے۔
عمران نے میز پر رکھے کاغذات کو پہلی سی ترتیب میں رکھ دیا اور چپ چاپ لائبریری سے نکل آیا۔ لیڈی جہانگیر کے بیان کے مطابق سر جہانگیر ایک ماہ سے غائب تھے....تو پھر!
عمران کا ذہن چوکڑیاں بھر نے لگا!.... آخر ان معاملات سے جہانگیر کا کیا تعلق! خواب گاہ میں واپس آنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر اس کمرے میں جھانکا جہاں لیڈی جہانگیر سو رہی تھی....اور مسکراتا ہوا اس کمرے میں چلا آیا جہاں اسے خود سونا تھا۔
صبح نو بجے لیڈی جہانگیر اسے بری طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہی تھی۔
"ول ڈن! ول ڈن۔" عمران ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور مسہری پر اکڑوں بیٹھ کر اس طرح تالی بجانے لگا جیسے کسی کھیل کے میدان میں بیٹھا ہوا کھلاڑیوں کو داد دے رہا ہو!
"یہ کیا بے ہودگی!" لیڈی جہانگیر جھنجھلا کر بولی۔
”اوہ! ساری!" وہ چونک کر لیڈی جہانگیر کو متحیر انہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"ہلو! لیڈی....جہانگیر! فرمائیے۔ صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی۔“
”تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟" لیڈی جہانگیر نے تیز لہجے میں کہا۔
”ہو سکتا ہے!" عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ اور اپنے نوکروں کے نام لے لے کر انہیں پکار نے لگا۔
لیڈی جہانگیر اسے چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی۔
"براہ کرم اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ...."
"ہائیں تم مجھے میرے گھر سے نکالنے والی کون ہو؟“ عمران اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
”یہ تمہارے باپ کا گھر ہے؟" لیڈی جہانگیر کی آواز بلند ہو گئی۔
عمران چاروں طرف حیرانی سے دیکھنے لگا۔ اس طرح اچھلا جیسے اچانک سر پر کوئی چیز گری ہو۔
"ارے میں کہاں ہوں! کمرہ تو میرا نہیں معلوم ہوتا۔“
"اب جاؤ۔ ورنہ مجھے نوکروں کو بلانا پڑے گا۔“
"نوکروں کو بلا کر کیا کرو گی؟ میرے لائق کوئی خدمت! ویسے تم غصے میں بہت حسین لگتی ہو"
"شٹ اپ۔"
”اچھا کچھ نہیں کہوں گا!" عمران بسور کر بولا اور پھر مسہری پر بیٹھ گیا۔
لیڈی جہانگیر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتی رہی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ عمران نے جوتے پہنے۔ کھونٹی سے کوٹ اتارا اور پھر بڑے اطمینان سے لیڈی جہانگیر کی سنگھار میز پر جم گیا اور پھر اپنے بال درست کرتے وقت اس طرح گنگار ہا تھا جیسے سچ مچ اپنے کمرے ہی میں بیٹھا ہو ۔ لیڈی جہانگیر دانت پیس رہی تھی لیکن ساتھ ہی بے بسی کی ساری علامتیں بھی اس کے چہرے پر امنڈ آئی تھیں۔
"ٹاٹا!" عمران دروازے کے قریب پہنچ کر مڑا اور احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔
اس کا ذہن اس وقت بالکل صاف ہو گیا تھا پچھلی رات کی معلومات ہی اس کی تشفی کے لئے کافی تھیں۔ سر جہانگیر کے لیٹر ہیڈ کا پراسرار طور پر مرے ہوئے آدمی کے ہاتھ میں پایا جانا اس پر دلالت کرتا تھا کہ اس معاملہ سے سر جہانگیر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے!۔ اور شائد سر جہانگیر شہر ہی میں موجود تھا! ہو سکتا ہے کہ لیڈی جہانگیر اس سے لاعلم رہی ہو۔
اب عمران کو اس خوش رو آدمی کی فکر تھی جسے ان دنوں جج صاحب کی لڑکی کے ساتھ دیکھا جا رہا تھا۔
"دیکھ لیا جائے گا!" وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
اس کا ارادہ تو نہیں تھا کہ گھر کی طرف جائے مگر جانا ہی پڑا۔ گھر گئے بغیر موٹر سائیکل کس طرح ملتی اسے یہ بھی تو معلوم کرنا تھا کہ وہ ”خوفناک عمارت“ دراصل تھی کسی کی؟ اگر اس کا مالک گاؤں والوں کے لئے اجنبی تھا تو ظاہر ہے کہ اس نے وہ عمارت خود نہیں بنوائی ہو گی۔ کیونکہ طرز تعمیر بہت پرانا تھا۔ لہذا ایسی صورت میں یہی سوچا جا سکتا تھا کہ اس نے بھی اسے کسی سے خریدا ہی ہو گا۔
گھر پہنچ کر عمران کی شامت نے اسے پکارا۔ بڑی بی شائد پہلے ہی سے بھری بیٹھی تھیں۔ عمران کی صورت دیکھتے ہی آگ بگولہ ہو گئیں!
"کہاں تھے رے....کمینے سور!“
"اوہو! اماں بی۔ گڈمارننگ....ڈئیرسٹ!“
"مارننگ کے بچے میں پوچھتی ہوں رات کہاں تھا۔“
"وہ اماں بی کیا بتاؤں۔ وہ حضرت مولانا....بلکہ مرشدی و مولائی سیدنا جگر مراد آبادی ہیں نا....لاحول ولا قوة....مطلب یہ ہے کہ مولوی تفضّل حسین قبلہ کی خدمت میں رات حاضر تھا! اللّٰہ اللّٰہ....کیا بزرگ ہیں....اماں بی....بس یہ سمجھ لیجئے کہ میں آج سے نماز شروع کردوں گا۔"
"ارے....کمینے....کتے....تو مجھے بیوقوف بنا رہا ہے۔“ بڑی بی جھنجھلائی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔
”ارے تو بہ اماں بی!" عمران زور سے اپنا منہ پیٹنے لگا۔ ”آپ کے قدموں کے نیچے میری جنت ہے۔"
اور پھر ثریا کو آتے دیکھ کر عمران نے جلد سے جلد وہاں سے کھسک جانا چاہا! بڑی بی برابر بڑبڑائے جا رہی تھیں۔
”اماں بی! آپ خواہ مخواہ اپنی طبیعت خراب کر رہی ہیں! دماغ میں خشکی بڑھ جائے گی۔“ ثریا نے آتے ہی کہا۔ ”اور یہ بھائی جان! ان کو تو خدا کے حوالے کیجئے!“
عمران کچھ نہ بولا! اماں بی کو بڑبڑاتا چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا تھا؟
"شرم نہیں آتی۔ باپ کی پگڑی اچھالتے پھر رہے ہیں۔“ ثریا نے اماں بی کے کسی مصرعہ پر گرہ لگائی!
"ہائیں تو کیا ابا جان نے پگڑی باندھنی شروع کر دی۔“ عمران پر مسرت لہجے میں چیخا۔
اماں بی اختلاج کی مریض تھیں۔ اعصاب بھی کمزور تھے لہذا انہیں غصہ آگیا ایسی حالت میں ہمیشہ انکا ہاتھ جوتی کی طرف جاتا تھا! عمران اطمینان سے زمین پر بیٹھ گیا....اور پھر تڑاتڑ کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہیں سن سکا۔ اماں بی جب اسے جی بھر کے پیٹ چکیں تو انہوں نے رونا شروع کر دیا!.....ثریا انہیں دوسرے کمرے میں گھسیٹ لے گئی....عمران کی چچا زاد بہنوں نے اسے گھیر لیا۔ کوئی اس کے کوٹ سے گرد جھاڑ رہی تھی اور کوئی ٹائی کی گرہ درست کر رہی تھی۔ ایک نے سر پر چمپی شروع کر دی۔
عمران نے جیب سے سگرٹ نکال کر سلگائی اور اس طرح کھڑا رہا جیسے وہ بالکل تنہا ہو۔ دو چار کش لے کر اس نے اپنے کمرے کی راہ لی اور اسکی چچازاد بہنیں زرینہ اور صوفیہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں۔ عمران نے کمرے میں آکر فلٹ ہیٹ ایک طرف اچھال دی۔ کوٹ مسہری پر پھینکا اور ایک آرام کرسی پر گر کر اونگھنے لگا۔
رات والا کاغذ اب بھی اس کے ہاتھ میں دبا ہوا تھا! اس پر کچھ ہندسے لکھے ہوئے تھے۔ کچھ پیمائشیں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑھئی نے کوئی چیز گھڑنے سے پہلے اسکے مختلف حصوں کے تناسب کا اندازہ لگایا ہو! بظاہر اس کاغذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن اسکا تعلق ایک نامعلوم لاش سے تھا۔ ایسے آدمی کی لاش سے جس کا قتل بڑے پر اسرار حالات میں ہوا تھا۔ اور ان حالات میں یہ دوسر ا قتل تھا!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں