6: اندھیرے میں آنکھیں
اندھیرے میں آنکھیں
کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی چکنی سڑک پر پھسلتی جارہی تھی کیریئر پر عمران الوؤں کی طرح دیدے پھرا رہا تھا۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔ دفعتاً وہ فیاض کا شانہ تھپتھپا کر بولا۔
”یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کسی نے والد یک چشم کی کنجی کی نقل تیار کروائی ہے۔“
"ہوں! لیکن آخر کیوں؟“
"پوچھ کر بتاؤں گا۔“
"کس سے؟“
"بیکراں نیلے آسمان سے تاروں بھری رات سے، ہولے ہولے چلنے والی ٹھنڈی اداؤں....لا حول ولا....ہواؤں سے۔۔!"
فیاض کچھ نہ بولا! عمران بڑبڑاتا رہا۔ "لیکن شہید میاں کی قبر کی جاروب کشی کرنے والے کی کنجی!۔۔ اس کا حاصل کرنا نسبتاً آسان رہا ہوگا....بہر حال ہمیں اس عمارت کی تاریخ معلوم کرنی ہے۔ شائد ہم اس کے نواح میں پہنچ گئے ہیں۔ موٹر سائیکل روک دو۔“
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔
"انجن بند کر دو۔“
فیاض نے انجن بند کر دیا۔ عمران نے اس کے ہاتھ سے موٹر سائیکل لے کر ایک جگہ جھاڑی میں چھپادی۔
"آخر کرنا کیا چاہتے ہو۔“ فیاض نے پوچھا۔
"میں پوچھتا ہوں تم مجھے کیوں ساتھ لئے پھرتے ہو۔“ عمران بولا۔
"وہ قتل....جو اس عمارت میں ہوا تھا۔“
"قتل نہیں حادثہ کہو۔"
"حادثه! .... کیا مطلب؟" فیاض حیرت سے بولا۔
"مطلب کے لئے دیکھو غیاث اللغات صفحہ ایک سو باره....ویسے ایک سو بارہ پر بیگم پارہ یاد آرہی ہے۔ بیگم پارہ کے ساتھ امرت دھارا ضروری ہے ورنہ ڈیوڈ کی طرح چندیا صاف۔“
فیاض جھنجھلا کر خاموش ہو گیا۔
دونوں آہستہ آہستہ اس عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پہلے پوری عمارت کا چکر لگایا پھر صدر دروازے کے قریب پہنچ کر رک گئے۔
”اوہ۔" عمران آہستہ سے بڑبڑایا”تالا بند نہیں ہے۔“
"کیسے دیکھ لیا تم نے....مجھے تو سجھائی نہیں دیتا۔" فیاض نے کہا۔
"تم الو نہیں ہو۔“ عمران بولا۔ ”چلو ادھر سے ہٹ جاؤ۔“
دونوں وہاں سے ہٹ کر پھر مکان کی پشت پر آئے۔ عمران اوپر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار کافی اونچی تھی....اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور دیوار پر روشنی ڈالنے لگا۔
”میرا بوجھ سنبھال سکو گے۔“ اس نے فیاض سے پوچھا۔
"میں نہیں سمجھا۔“
"تمہیں سمجھانے کے لئے تو باقاعدہ بلیک بورڈ اور چاک اسٹک چاہئے مطلب یہ کہ میں اوپر جانا چاہتا ہوں۔
کر
"کیوں؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اندر موجود ہے۔“ فیاض نے کہا۔
"نہیں یوں ہی جھک مارنے کا ارادہ ہے۔ چلو بیٹھ جاؤ۔ میں تمہارے کاندھوں پر کھڑا ہو کر...."
"پھر بھی دیوار بہت اونچی ہے۔“
"یار فضول بحث نہ کرو۔" عمران اکتا کر بولا۔ ” ورنہ میں واپس جا رہا ہوں“
طوعاً و کرہاً فیاض دیوار کی جڑ میں بیٹھ گیا۔
”اماں جو تے تو اتار لو۔“ فیاض نے کہا۔
”لے کر بھاگنا مت۔“ عمران نے کہا اور جوتے اتار کر اس کے کاندھوں پر کھڑا ہو گیا۔
”چلو اب اٹھو۔“
فیاض آہستہ آہستہ اٹھ رہا تھا....عمران کا ہاتھ روشندان تک پہنچ گیا!....اور دوسرے ہی لمحے میں وہ بندروں کی طرح دیوار پر چڑھ رہا تھا....فیاض منہ پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران آدمی ہے یا شیطان کیا یہ وہی احمق ہے جو بعض اوقات کسی کینچوے کی طرح بالکل بے ضرر معلوم ہوتا ہے۔
جن روشندانوں کی مدد سے عمران او پر پہنچا تھا انہیں کے ذریعہ دوسری طرف اتر گیا چند لمحے وہ دیوار سے لگا کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اس طرف بڑھنے لگا جدھر سے کئی قدموں کی آہٹیں مل رہی تھیں۔
اور پھر اسے یہ معلوم کر لینے میں دشواری نہ ہوئی کہ وہ نا معلوم آدمی اسی کمرے میں تھے جس میں اس نے لاش دیکھی تھی۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا لیکن دروازوں سے موم بتی کی ہلکی زرد روشنی چھن رہی تھی۔ اس کے علاوہ دالان بالکل تاریک تھا۔
عمران دیوار سے چپکا ہوا آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا لیکن اچانک اس کی نظر شہید مرد کی قبر کی طرف اٹھ گئی۔ جس کا تعویذ او پر اٹھ رہا تھا۔ تعویذ اور فرش کے درمیان خلا میں ہلکی سی روشنی تھی اور اس خلا سے دو خوفناک آنکھیں اندھیرے میں گھور رہی تھیں۔
عمران سہم کر رک گیا وہ آنکھیں پھاڑے قبر کی طرف دیکھ رہا تھا....اچانک قبر سے ایک چیخ بلند ہوئی۔ چیخ تھی یا کسی ایسی بندریا کی آواز جس کی گردن کسی کتے نے دبوچ لی ہو۔
عمران جھپٹ کر برابر والے کمرے میں گھس گیا! وہ جانتا تھا کہ اس چیخ کا ردِ عمل دوسرے کمرے والوں پر کیا ہو گا! وہ دروازے میں کھڑا قبر کی طرف دیکھ رہا تھا تعویذ ابھی تک اٹھا ہوا تھا اور وہ خوفناک آنکھیں اب بھی چنگاریاں برسا رہی تھیں۔ دوسری چیخ کے ساتھ ہی برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا ایک چیخ پھر سنائی دی جو پہلی سے مختلف تھی۔ غالباً یہ انہیں نامعلوم آدمیوں
میں سے کسی کی چیخ تھی۔
"بھوت بھوت!" کوئی کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا اور پھر ایسا معلوم ہوا جیسے کئی آدمی صدر دروازے کی طرف بھاگ رہے ہوں۔
تھوڑی دیر بعد سناٹا ہو گیا۔ قبر کا تعویذ برابر ہو گیا تھا۔
عمران زمین پر لیٹ کر سینے کے بل رینگتا ہوا صدر دروازے کی طرف بڑھا کبھی کبھی وہ پلٹ کر قبر کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا لیکن پھر تعویذ نہیں اٹھا۔
صدر دروازہ باہر سے بند ہو چکا تھا۔ عمران اچھی طرح اطمینان کر لینے کے بعد پھر لوٹ پڑا۔
لاش والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لیکن اب وہاں اندھیرے کی حکومت تھی۔ عمران نے آہستہ سے دروازہ بند کر کے ٹارچ نکالی۔ لیکن روشنی ہوتے ہی....
"إِنَّا لِله وَ إِنَّا عليه راجعون.“ وہ آہستہ سے بڑبڑایا خدا تمہاری بھی مغفرت کرے۔“
ٹھیک اسی جگہ جہاں وہ اس سے قبل بھی ایک لاش دیکھ چکا تھا۔ دوسری پڑی ہوئی دکھائی دی....اس کی پشت پر بھی تین زخم تھے جن سے خون بہہ بہہ کر فرش پر پھیل رہا تھا۔ عمران نے جھک کر اسے دیکھا یہ ایک خوش وضع اور کافی خوبصورت جوان تھا۔ اور لباس سے کسی اونچی سوسائٹی کا فرد معلوم ہو تا تھا۔
"آج ان کی کل اپنی باری ہے۔" عمران درویشانہ انداز میں بڑ بڑاتا ہوا سیدھا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا جو اس نے مرنے والے کی مٹھی سے بدقت تمام نکالا تھا۔
وہ چند لمحے اسے ٹارچ کی روشنی میں دیکھتا رہا۔ پھر معنی خیز انداز میں سر ہلا کر کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا کمرے کے بقیہ حصوں کی حالت بعینہٖ وہی تھی۔ جو اس نے پچھلی مرتبہ دیکھی تھی۔ کوئی خاص فرق نہیں نظر آ رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ پھر پچھلی دیوار سے نیچے اتر رہا تھا۔ آخری روشندان پر پیر رکھ کر اس نے چھلانگ لگادی۔
"تمہاری یہ خصوصیت بھی آج ہی معلوم ہوئی۔“ فیاض آہستہ سے بولا۔
"کیا اندر کسی بندریا سے ملاقات ہو گئی تھی۔"
”آواز پہنچی تھی یہاں تک۔“ عمران نے پوچھا۔
”ہاں! لیکن میں نے ان اطراف میں بندر نہیں دیکھے!"
"ان کے علاوہ کوئی دوسری آواز؟“
"ہاں....شائد تم ڈر کر چیخے تھے۔“ فیاض بولا۔
"لاش اسی وقت چاہئے یا صبح!" عمران نے پوچھا۔
"لاش!" فیاض اچھل پڑا۔ ”کیا کہتے ہو ۔ کیسی لاش۔“
"کسی شاعر نے دو غزلہ عرض کر دیا ہے۔“
”اے دنیا کے عقلمند ترین احمق صاف صاف کہو۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
"ایک دوسری لاش--تین زخم--زخموں کا فاصلہ پانچ انچ--پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ان کی گہرائی بھی یکساں نکلے گی۔"
"یار بیوقوف مت بناؤ۔“ فیاض عاجزی سے بولا۔
"جج صاحب والی کنجی موجود ہے۔ عقلمند بن جاؤ۔" عمران نے خشک لہجے میں کہا۔
"لیکن یہ ہوا کس طرح؟“
"اسی طرح جیسے شعر ہوتے ہیں....لیکن یہ شعر مجھے بھرتی کا معلوم ہوتا ہے جیسے میر~ کا یہ شعرـــ
میر٘ کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو اب اس نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
”بھلا بتاؤ دیر میں کیوں بیٹھا جلدی کیوں نہیں بیٹھ گیا۔“
"دیر نہیں دَیر ہے۔ یعنی بت خانہ!" فیاض نے کہا پھر بڑ بڑا کر بولا۔ ”لا حول ولا قوۃ میں بھی اسی لغویت میں پڑ گیا۔ وہ لاش عمارت کے کس حصے میں ہے۔“
"اسی کمرے میں اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلی لاش ملی تھی۔"
"لیکن وہ آوازیں کیسی تھیں۔“ فیاض نے پوچھا۔
"اوہ نہ پوچھو تو بہتر ہے۔ میں نے اتنا مضحکہ خیز منظر آج تک نہیں دیکھا۔“
"یعنی۔“
"پہلے ایک گدھا دکھائی دیا۔ جس پر ایک بندریا سوار تھی....پھر ایک دوسرا سایہ نظر آیا جو یقیناً کسی آدمی کا تھا۔ اندھیرے میں بھی گدھے اور آدمی میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ کیوں تمہارا کیا خیال ہے؟“
"مجھے افسوس ہے کہ تم ہر وقت غیر سنجیدہ رہتے ہو۔“
"یار فیاض سچ کہنا! اگر تم ایک آدمی کو کسی بندریا کا منہ چومتے دیکھو تو تمہیں غصہ آئے گا یا نہیں۔"
"فضول!....وقت برباد کر رہے ہو تم۔“
"اچھا چلو...." عمران اس کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔
وہ دونوں صدر دروازے کی طرف آئے۔
"کیوں خواہ مخواہ پریشان کر رہے ہو۔“ فیاض نے کہا۔
"کنجی نکالو!“
دروازہ کھول کر دونوں لاش والے کمرے میں آئے۔ عمران نے ٹارچ روشن کی۔ لیکن وہ دوسرے ہی لمحے میں اس طرح سر سہلا رہا تھا جیسے دماغ پر دفعتاً گرمی چڑھ گئی ہو۔
لاش غائب تھی۔
"یہ کیا مذاق؟" فیاض بھنا کر پلٹ پڑا۔
”ہوں۔ بعض عقلمند شاعر بھرتی کے شعر اپنی غزلوں سے نکال بھی دیا کرتے ہیں“
"یار عمران میں باز آیا تمہاری مدد سے۔“
"مگر میری جان یہ لو دیکھو....نقش فریادی ہے کسی کی شوخی تحریر کا....لاش غائب کرنے والے نے ابھی خون کے تازہ دھبوں کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ مرزا افتخار رفیع سودا یا کوئی صاحب فرماتے ہیں ـــ
قاتل ہماری لاش کو تشہیر دے ضرور
آئندہ تا کہ کوئی نہ کسی سے وفا کرے
فیاض جھک کر فرش پر پھیلے ہوئے خون کو دیکھنے لگا۔
"لیکن لاش کیا ہوئی۔" وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
”فرشتے اٹھالے گئے۔ مرنے والا بہشتی تھا....مگر لا حول ولا....بہشتی....سقے کو بھی کہتے ہیں....او ہو فردوسی تھا....لیکن فردوسی....تو محمود غزنوی کی زندگی ہی میں مر گیا تھا....پھر کیا کہیں گے....بھئی بولونا۔“
"یار بھیجا مت چاٹو۔“
"الجھن۔ بتاؤ جلدی....کیا کہیں گے....سر چکرا رہا ہے دورہ پڑ جائے گا۔“
"جنتی کہیں گے....عمران تم سے خدا سمجھے۔"
"جیو!....ہاں تو مرنے والا جنتی تھا....اور کیا کہہ رہا تھا میں...."
"تم یہیں رکے کیوں نہیں رہے۔" فیاض بگڑ کر بولا۔ "مجھے آواز دے لی ہوتی۔"
"سنو یار! بندریا تو کیا میں نے آج تک کسی مکھی کا بھی بوسہ نہیں لیا۔" عمران مایوسی سے بولا۔
"کیا معاملہ ہے۔ تم کئی بار بندریا کا حوالہ دے چکے ہو۔“
"جو کچھ ابھی تک بتایا ہے بالکل صحیح تھا....اس آدمی نے گدھے پر سے بندریا اتاری اسے کمرے میں لے گیا....پھر بندریا دوبار چیخی اور وہ آدمی ایک بار....اس کے بعد سناٹا چھا گیا....پھر لاش دکھائی دی۔ گدھا اور بندریا غائب تھے!“
"سچ کہہ رہے ہو۔" فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
”مجھے جھوٹا سمجھنے والے پر قہر خداوندی کیوں نہیں ٹوٹتا۔“
فیاض تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر تھوک نگل کر بولا۔
"تت....تو....پھر صبح پر رکھو۔“
عمران کی نظریں پھر قبر کی طرف اٹھ گئیں۔ قبر کا تعویذ اٹھا ہوا تھا اور وہی خوفناک آنکھیں اندھیرے میں گھور رہی تھیں۔ عمران نے ٹارچ بجھا دی اور فیاض کو دیوار کی اوٹ میں دھکیل لے گیا نہ جانے کیوں وہ چاہتا تھا کہ فیاض کی نظر اس پر نہ پڑنے پائے۔
"کک کیا؟“ فیاض کانپ کر بولا۔
”بندریا!" عمران نے کہا۔
وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا کہ وہی چیخ ایک بار پھر سناٹے میں لہرا گئی۔
"ارے باپ...." فیاض کسی خوفزدہ بچے کی طرح بولا۔
"آنکھیں بند کرلو۔" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ”ایسی چیزوں پر نظر پڑنے سے ہارٹ فیل بھی ہو جایا کرتا ہے۔ ریوالور لائے ہو۔“
"نہیں....نہیں....تم نے بتایا کب تھا۔“
"خیر کوئی بات نہیں!۔۔اچھا ٹھہرو!" عمران آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
قبر کا تعویذ برابر ہو چکا تھا اور سنانا پہلے سے بھی کچھ زیادہ گہرا معلوم ہونے لگا تھا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں