5: غم اور حماقت کے عکس

 غم اور حماقت کے عکس

Chapter 5 Feature Image

عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
"ہاں!۔۔اور اس کمرے کے پلاسٹر کے متعلق پوچھا تھا۔“
"جج صاحب نے اس سے لاعلمی ظاہر کی۔ البتہ انہوں نے یہ بتایا کہ ان کے دوست کی موت اسی کمرے میں واقع ہوئی تھی۔“
"قتل۔“ عمران نے پوچھا۔
"نہیں قدرتی موت، گاؤں والوں کے بیان کے مطابق وہ عرصہ سے بیمار تھا۔“
”اس نے اس عمارت کو کس سے خریدا تھا۔“ عمران نے پوچھا۔
" آخر اس سے کیا بحث! تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔“
"محبوبه یک چشم کے والد بزرگوار سے یہ بھی پوچھو۔“
"ذرا آہستہ! عجیب آدمی ہو اگر اس نے سن لیا تو!“
"سننے دو!۔۔ابھی میں اس سے اپنے دل کی حالت بیان کروں گا۔“
"یار عمران خدا کے لئے.... کیسے آدمی ہو تم!"
"فضول باتیں مت کرو۔" عمران بولا۔ "ذرا جج صاحب سے وہ کنجی مانگ لاؤ۔“
”اوہ کیا ابھی ....!"
”ابھی اور اسی وقت!“
فیاض اٹھ کر چلا گیا! اس کے جاتے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ میں داخل ہوئیں۔
"کہاں گئے!" فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
"شراب پینے۔“ عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
"کیا؟" فیاض کی بیوی منہ پھاڑ کر بولی۔ پھر بنسنے لگی۔
"کھانا کھانے سے پہلے ہمیشہ تھوڑی سی پیتے ہیں۔“ عمران نے کہا۔
"آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے.... وہ ایک ٹانک ہے۔“
"ٹانک کی خالی بوتل میں شراب رکھنا مشکل نہیں!“
"لڑانا چاہتے ہیں آپ۔" فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔
"کیا آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے۔“ عمران نے رابعہ کو مخاطب کیا۔
"جی....جی....جی نہیں۔" رابعہ نروس نظر آنے لگی۔
"کچھ نہیں۔" فیاض کی بیوی جلدی سے بولی۔ "عادت ہے تیز روشنی برداشت نہیں ہوتی اسیلئے یہ چشمہ...."
"اوہ اچھا!" عمر ان بڑبڑایا۔ ”میں ابھی کیا سوچ رہا تھا۔“
"آپ غالبا یہ سوچ رہے تھے کہ فیاض کی بیوی بڑی پھوہڑ ہے۔ ابھی تک کھانا بھی نہیں تیار ہو سکا۔“
”نہیں یہ بات نہیں ہے میرے ساتھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی بھول جاتا ہوں! سوچتے سوچتے بھول جاتا ہوں کہ کیا سوچ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے میں ابھی یہ بھول جاؤں کہ آپ کون ہیں اور میں کہاں ہوں؟ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں۔“
" مجھے معلوم ہے۔“ فیاض کی بیوی مسکرائی۔
"مطلب یہ کہ اگر مجھ سے کوئی حماقت سرزد ہو تو بلا تکلف ٹوک دیجئے گا۔“
ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ فیاض واپس آگیا۔
"کھانے میں کتنی دیر ہے۔“ اس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
"بس ذراسی۔“
فیاض نے کنجی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور عمران کے انداز سے بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہو کہ اس نے فیاض کو کہاں بھیجا تھا۔
تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے دوران میں عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سب نے دیکھا لیکن کسی نے پوچھا نہیں خود فیاض جو عمران کی رگ رگ سے واقف ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا، کچھ نہ سمجھ سکا۔ فیاض کی بیوی اور رابعہ تو بار بار کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ آنسو کسی طرح رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ خود عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے بھی ان آنسوؤں کا علم نہ ہو۔ آخر فیاض کی بیوی سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ پوچھ ہی بیٹھی۔
"کیا کسی چیز میں مرچیں زیادہ ہیں۔“
”جی نہیں۔۔نہیں تو۔“
"تو پھر یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں۔“
"آنسو....کہاں۔“ عمران اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر تا ہوا بولا ”لل .... لاحول ولا قوۃ۔ شائد وہی بات ہو .... مجھے قطعی احساس نہیں ہوا۔“
"کیا بات؟" فیاض نے پوچھا۔
”دراصل مرغ مسلم دیکھ کر مجھے اپنے ایک عزیز کی موت یاد آگئی تھی۔“
"کیا؟ مرغ مسلم دیکھ کر۔“ فیاض کی بیوی حیرت سے بولی۔
”جی ہاں....."
”بھلا مرغ مسلم دیکھ کر کیوں؟“
”دراصل ذہن میں دوزخ کا تصور تھا! مرغ مسلم دیکھ کر آدمی مسلم کا خیال آگیا۔ میرے ان عزیز کا نام اسلم ہے مسلم پر اسلم آگیا.... پھر ان کی موت کا خیال آیا۔ پھر سوچا کہ اگر وہ دوزخ میں پھینکے گئے تو اسلم مسلم....معاذ اللہ.....!"
"عجیب آدمی ہو۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
جج صاحب کی لڑکی رابعہ بے تحاشہ ہنس رہی تھی۔
"کب انتقال ہوا ان کا۔“ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
"ابھی تو نہیں ہوا۔“ عمران نے سادگی سے کہا اور کھانے میں مشغول ہو گیا۔
"یار مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم سچ مچ پاگل نہ ہو جاؤ۔“
"نہیں جب تک کو کا کولا بازار میں موجود ہے پاگل نہیں ہو سکتا۔“
"کیوں!" فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
"پتہ نہیں!... بہر حال محسوس یہی کرتا ہوں۔“
کھانا ختم ہو جانے کے بعد بھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہاں بیٹھنا چاہتی تھی۔ لیکن فیاض کی بیوی اسے کسی بہانے سے اٹھا لے گئی شائد فیاض نے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ ان کے جاتے ہی فیاض نے عمران کو کنجی پکڑادی اور عمران تھوڑی دیر تک اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعد بولا۔
"ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے۔ اس کے سوراخ کے اندر موم کے ذرات ہیں! موم کا سانچہ-- سمجھتے ہو نا!“

تبصرے