4: پراسرار وراثت

 پراسرار وراثت

Chapter 4 Feature Image

دوسرے دن کیپٹن فیاض نے عمران کو اپنے گھر میں مدعو کیا۔ حالانکہ کئی بار کے تجربات نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ عمران وہ نہیں ہے جو ظاہر کرتا ہے نہ وہ احمق ہے اور نہ خبطی! لیکن پھر بھی فیاض نے اسے موڈ میں لانے کے لئے جج صاحب کی کانی لڑکی کو بھی مدعو کر لیا تھا! حالا نکہ وہ عمران کی اس افتاد طبع کو بھی مذاق ہی سمجھا تھا لیکن پھر بھی اس نے سوچا کہ تھوڑی تفریح ہی رہے گی۔ فیاض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیاض نے اسے اس کے "عشق" کی داستان سنائی تو ہنستے ہنستے اس کا برا حال ہو گیا۔
فیاض اس وقت اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اور جج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی موجود تھیں۔
"ابھی تک نہیں آئے، عمران صاحب!" فیاض کی بیوی نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیا وقت ہے۔“ فیاض نے پوچھا۔
"ساڑھے سات!“
”بس دو منٹ بعد وہ اس کمرے میں ہو گا۔“ فیاض مسکرا کر بولا۔
"کیوں۔ یہ کیسے؟“
"بس اس کی ہر بات عجیب ہوتی ہے! وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کرتا ہے۔ اس نے سات بج کر بتیس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہذا میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ہمارے بنگلے کے قریب ہی کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہو گا۔“
"عجیب آدمی معلوم ہوتے ہیں۔" رابعہ نے کہا۔
"عجیب ترین کہئے! انگلینڈ سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لے کر آیا ہے۔ لیکن اس کی حرکات....وہ ابھی دیکھ لیں گی۔ اس صدی کا سب سے عجیب آدمی.... لیجئے شائد وہی ہے۔“
دروازے پر دستک ہوئی۔
فیاض اٹھ کر آگے بڑھا!.... دوسرے لمحے میں عمران ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہا تھا۔
عورتوں کو دیکھ کر وہ قدرے جھکا اور پھر فیاض سے مصافحہ کرنے لگا۔
"غالباً مجھے سب سے پہلے یہ کہنا چاہئے کہ آج موسم بڑا خوشگوار رہا۔" عمران بیٹھتا ہوا بولا۔
فیاض کی بیوی بنسنے لگی اور رابعہ نے جلدی سے تاریک شیشوں والی عینک لگالی۔
"آپ سے ملئے، آپ مسں رابعہ سلیم ہیں۔ ہمارے پڑوسی جج صاحب کی صاحبزادی اور آپ مسٹر علی عمران میرے محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب کے صاحبزادے۔“
"بڑی خوشی ہوئی۔" عمران مسکرا کر بولا پھر فیاض سے کہنے لگا "تم ہمیشہ گفتگو میں غیر ضروری الفاظ ٹھونستے رہتے ہو۔ جو بہت گراں گذرتے ہیں.... رحمان صاحب کے صاحبزادے! دونوں صاحبوں کا ٹکراؤ برا لگتا ہے۔ اس کے بجائے رحمان صاحب کے زادے...... یا صرف رحمان زادے کہہ سکتے ہیں۔“
”میں لٹریری آدمی نہیں ہوں۔“ فیاض مسکرا کر بولا۔
دونوں خواتین بھی مسکرا رہی تھیں۔ پھر رابعہ نے جھک کر فیاض کی بیوی سے کچھ کہا اور وہ دونوں اٹھ کر ڈرائنگ روم سے چلی گئیں۔
"بہت برا ہوا۔“ عمران برا سامنہ بنا کر بولا۔
"کیا؟ شائد وہ باورچی خانے کی طرف گئی ہیں؟" فیاض نے کہا۔ ”باورچی کی مدد کے لئے آج کوئی نہیں ہے۔“
"تو کیا تم نے اسے بھی مدعو کیا ہے۔“
”ہاں بھئی کیوں نہ کرتا میں نے سوچا کہ اس بہانے سے تمہاری ملاقات بھی ہو جائے۔“
"مگر مجھے بڑی کوفت ہو رہی ہے۔“ عمران نے کہا۔
”کیوں؟“
"آخر اس نے دھوپ کا چشمہ کیوں لگایا ہے۔“
"اپنا نقص چھپانے کے لئے۔“
”سنو میاں! دو آنکھوں والیاں مجھے بہتیری مل جائیں گی۔ یہاں تو معاملہ صرف اس آنکھ کا ہے۔ ہائے کیا چیز ہے.... کسی طرح اس کا چشمہ اترواؤ۔ ورنہ میں کھانا کھائے بغیر واپس چلا جاؤں گا۔“
"مت بکو ۔“
"میں چلا!" عمران اٹھتا ہوا بولا۔
"عجیب آدمی ہو .... بیٹھو!" فیاض نے اسے دوبارہ بٹھا دیا۔
"چشمہ اترواؤ، میں اس کا قائل نہیں کہ محبوب سامنے ہو اور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو۔“
”ذرا آہستہ بولو۔“ فیاض نے کہا۔
”میں تو ا بھی اس سے کہوں گا۔“
"کیا کہو گے۔" فیاض بوکھلا کر بولا۔
”یہی جو تم سے کہہ رہا ہوں۔“
"یار خدا کے لئے....“
"کیا برائی ہے .... اس میں۔“
”میں نے سخت غلطی کی۔" فیاض بڑبڑایا۔
"واہ ... غلطی تم کرو اور بھگتوں میں! نہیں فیاض صاحب! میں اس سے کہوں گا کہ براہ کرم چشمہ اتار دیجئے۔ مجھے آپ سے مرمت ہو گئی ہے.... مرمت..... مرمت..... شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔ بولو بھئی.... کیا ہونا چاہئے۔“
"محبت ...." فیاض برا سامنہ بنا کر بولا۔
"جیو! محبت ہو گئی ہے.... تو وہ اس پر کیا کہے گی۔“
"چانٹامار دے گی۔" فیاض جھنجھلا کر بولا۔
"فکر نہ کرو میں چانٹے کو چانٹے پر روک لینے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہوں طریقہ وہی ہو تا ہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا۔“
"یار خدا کے لئے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا!"
"عقل مندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی ہوئی توہین ہے اب بلاؤنا.... دل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کر سکتا.... وہ کیا ہوتا ہے جدائی میں.... بولو نا یار کون سا لفظ ہے۔"
"میں نہیں جانتا۔" فیاض جھنجھلا کر بولا۔
"خیر ہوتا ہوگا کچھ.... ڈکشنری میں دیکھ لوں گا.... ویسے میرا دل دھڑک رہا ہے ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے۔ میں اسے نہیں برداشت کر سکتا۔"
چند لمحے خاموشی رہی! عمران میز پر رکھے ہوئے گلدان کو اس طرح گھور رہا تھا جیسے اس نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہو۔
"آج کچھ نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں۔“ فیاض نے کہا۔
"ضرور معلوم ہوئی ہوں گی۔" عمران احمقوں کی طرح سر ہلا کر بولا۔
"مگر نہیں! پہلے میں تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں۔ تمہارا خیال درست نکلا۔ زخموں کی گہرائیاں بالکل برابر ہیں۔“

"کیا تم خواب دیکھ رہے ہو۔“ عمران نے کہا۔
"کیوں؟"
"کن زخموں کی باتیں کر رہے ہو؟“
”دیکھو عمران میں احمق نہیں ہوں۔“
”پتہ نہیں جب تک تین گواہ نہ پیش کر و یقین نہیں آسکتا۔“
"کیا تم کل والی لاش بھول گئے۔“
"لاش--ار .... ہاں یاد آگیا۔ اور وہ تین زخم برابر نکلے....ہا...."
"اب کیا کہتے ہو۔“ فیاض نے پوچھا۔
"سنگ و آہن بے نیاز غم نہیں۔۔دیکھ ہر دیوار و در سے سر نہ مار۔“ عمران نے گنگنا کر تان ماری اور میز پر طبلہ بجانے لگا۔
"تم سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔“ فیاض اکتا کر بے دلی سے بولا۔
"اس کا چشمہ اتروا دینے کا وعدہ کرو تو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں۔“
"کوشش کروں گا بابا! میں نے اسے ناحق مد عو کیا۔“
"دوسری بات یہ کہ کھانے میں کتنی دیر ہے؟“
"شائد آدھا گھنٹہ.... وہ ایک نوکر بیمار ہو گیا ہے۔“
"خیر ---ہاں جج صاحب سے کیا باتیں ہوئیں؟“
"وہی بتانے جارہا تھا! کنجی اس کے پاس موجود ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عمارت انہیں اپنے خاندانی تر کے میں نہیں ملی تھی۔“
”پھر" عمران توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔
"وہ در اصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اس دوست نے ہی اسے خریدا تھا! ان کی دوستی بہت پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ آج سے پانچ سال قبل اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملا جو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا اس نے لکھا تھا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد وہ زندہ نہ رہ سکے لہذا وہ مرنے سے پہلے ان سے بہت اہم بات کہنا چاہتا ہے! تقریباً پندرہ سال بعد جج صاحب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا! ان کا وہاں
پہنچنا ضروری تھا بہرحال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے ان کے دوست کا انتقال ہو چکا تھا معلوم ہوا کہ وہاں تنہا ہی رہتا تھا.... ہاں تو جج صاحب کو بعد میں معلوم ہوا کہ مرنے والے نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کی طرف منتقل کر دی تھی۔ لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ وہ ان سے کیا کہنا چاہتا تھا...."

تبصرے