18: خطرناک دھمکی
خطرناک دھمکی
اسی رات کو عمران بو کھلایا ہوا فیاض کے گھر پہنچا! فیاض سونے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایسے موقع پر اگر عمران کی بجائے کوئی اور ہو تا تو وہ بڑی بد اخلاقی سے پیش آتا۔ مگر عمران کا معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ اس کی بدولت آج اس کے ہاتھ ایسے کاغذات لگے تھے جن کی تلاش میں عرصہ سے محکمہ سراغرسانی سر مار رہا تھا۔ فیاض نے اسے اپنے سونے کے کمرے میں بلوالیا۔
"میں صرف ایک بات پوچھنے کے لئے آیا ہوں!" عمران نے کہا۔
"کیا بات ہے کہو!"
عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ ”کیا تم کبھی کبھی میری قبر پر آیا کرو گے۔“
فیاض کا دل چاہا کہ اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر سچ مچ اس کو قبر تک جانے کا موقع مہیا کرے! وہ کچھ کہنے کی بجائے عمران کو گھور تا رہا۔
"آہ! تم خاموش ہو!" عمران کسی نا کام عاشق کی طرح بولا۔ "میں سمجھا! تمہیں شائد کسی اور سے پریم ہو گیا ہے۔“
"عمران کے بچے....!"
"رحمان کے بچے!" عمران نے جلدی سے تصحیح کی۔
"تم کیوں میری زندگی تلخ کئے ہوئے ہو۔"
"اوہو! کیا تمہاری مادہ دوسرے کمرے میں سوئی ہے۔" عمران چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
"بکواس مت کرو!....اس وقت کیوں آئے ہو۔“
"ایک عشقیہ خط دکھانے کے لئے۔“ عمران جیب سے لفافہ نکالتا ہوا بولا ”اس کے شوہر نہیں ہے صرف باپ ہے۔“
فیاض نے اس کے ہاتھ سے لفافہ لے کر جھلاہٹ میں پھاڑنا چاہا۔
”ہاں ہاں!" عمران نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ "ارے پہلے پڑھو تو میری جان مزہ نہ آئے تو محصول ڈاک بذمہ خریدار؟“
فیاض نے طوعاً و کرہاً خط نکالا....اور پھر جیسے ہی اس کی نظریں اس پر پڑیں۔ بیزاری کی ساری علامتیں چہرے سے غائب ہو گئیں اور اس کی جگہ استعجاب نے لے لی خط ٹائپ کیا ہوا تھا۔
"عمران---- اگر وہ چرمی ہینڈ بیگ یا اس کے اندر کی کوئی چیز پولیس تک پہنچی تو تمہاری شامت آجائے گی! اسے واپس کردو.....بہتری اس میں ہے ورنہ کہیں....کسی جگہ موت سے
ملاقات ضرور ہو گی آج رات کو گیارہ بجے ریس کورس کے قریب ملو ہینڈ بیگ تمہارے ساتھ ہونا چاہئے! اکیلے ہی آنا! ورنہ اگر تم پانچ ہزار آدمی بھی ساتھ لاؤ گے تب بھی گولی تمہارے ہی سینے پر پڑے گی۔“
فیاض خط پڑھ چکنے کے بعد عمران کی طرف دیکھنے لگا۔
"لاؤ اسے واپس کر آؤں!" عمران نے کہا۔
”پاگل ہو گئے ہو۔“
”ہاں“
”تم ڈر گئے۔" فیاض ہنسنے لگا۔
"ہارٹ فیل ہوتے ہوتے بچا ہے۔" عمران ناک کے بل بولا۔
"ریوالور ہے تمہارے پاس۔“
"ریوالور" عمران اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہوئے بولا۔ "ارے باپ رے۔"
"اگر نہیں ہے تو میں تمہارے لئے لائسنس حاصل لوں گا۔“
"بس کرم کرو!" عمران بر اسامنہ بنا کر بولا۔ "اس میں آواز بھی ہوتی ہے اور دھواں بھی نکلتا ہے! میرا دل بہت کمزور ہے! لاؤ ہینڈ بیگ واپس کر دو۔“
"کیا بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو۔“
”اچھا تو تم نہیں دو گے۔“ عمران آنکھیں نکال کر بولا۔
"فضول مت بکو مجھے نیند آرہی ہے۔“
”ارے او....فیاض صاحب! ابھی میری شادی نہیں ہوئی اور میں باپ بنے بغیر مرنا پسند نہیں کروں گا۔“
"ہینڈ بیگ تمہارے والد کے آفس میں بھیج دیا گیا ہے۔“
”تب انہیں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر آنسو بہانے پڑیں گے! کنفیوشس نے کہا تھا۔“
"جاؤ یار خدا کے لئے سونے دو۔“
"گیارہ بجنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں۔" عمران گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
"اچھا چلو تم بھی یہیں سو جاؤ۔“ فیاض نے بے بسی سے کہا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر عمران نے کہا۔ ”کیا اس عمارت کے گرد اب بھی پہرہ ہے۔“
”ہاں!....کچھ اور آدمی بڑھا دیئے گئے ہیں لیکن آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔ آفیسر مجھ سے اس کا سبب پوچھتے ہیں اور میں ٹالتا رہتا ہوں۔"
"اچھا تو اٹھو! یہ کھیل بھی اسی وقت ختم کر دیں! تیس منٹ میں ہم وہاں پہنچیں گے باقی بچے ہیس منٹ! گیارہ سوا گیارہ بجے تک سب کچھ ہو جانا چاہئے!“
"کیا ہونا چاہئے؟"
"ساڑھے گیارہ بجے بتاؤں گا! اٹھو! میں اس وقت عالم تصور میں تمہارا عہدہ بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔“
"آخر کیوں ! کوئی خاص بات؟“
"علی عمران ایم ایس سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کبھی کوئی عام بات نہیں کرتا۔ سمجھے ناؤ گٹ اپ!" فیاض نے طوعاً و کرہاً لباس تبدیل کیا۔
تھوڑی دیر بعد اسکی موٹر سائیکل بڑی تیزی سے اس دیہی علاقہ کی طرف جارہی تھی جہاں وہ عمارت تھی!....عمارت کے قریب پہنچ کر عمران نے فیاض سے کہا۔
"تمہیں صرف اتنا کرنا ہے کہ تم اس وقت تک قبر کے مجاور کو باتوں میں الجھائے رکھو جب تک میں واپس نہ آجاؤں! سمجھے۔ اس کے کمرے میں جاؤ ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑنا"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں