19: خفیہ راستے اور گمشدہ کاغذات

خفیہ راستے اور گمشدہ کاغذات 

Chapter 19 Feature Image

عمارت کے گرد مسلح پہرہ تھا!...دستے کے انچارج نے فیاض کو پہچان کر سلیوٹ کیا۔ فیاض نے اس سے چند سر کاری قسم کی رسمی باتیں کیں اور سیدھا مجاور کے حجرے کی طرف چلا گیا جس کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور اندر مجاور غالباً مراقبے میں بیٹھا تھا۔ فیاض کی آہٹ پر اس نے آنکھیں کھول دیں جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھی۔

"کیا ہے؟“ اس نے جھلائے ہوئے لہجہ میں کہا۔

"کچھ نہیں۔ میں دیکھنے آیا تھا سب ٹھیک ٹھاک ہے یا نہیں!" فیاض بولا۔

"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ ان ہی گدھوں کی طرح پولیس بھی دیوانی ہو گئی ہے۔"

"کن گدھوں کی طرح۔“

"وہی جو سمجھتے ہیں کہ شہید مرد کی قبر میں خزانہ ہے۔“

"کچھ بھی ہو۔“ فیاض نے کہا۔ ”ہم نہیں چاہتے کہ یہاں سے روزانہ لاشیں برآمد ہوتی رہیں اگر ضرورت سمجھی تو قبر کھدوائی جائے گی۔"

"بھسم ہو جاؤ گے!" مجاور گرج کر بولا۔ "خون تھو کو گے....مرو گے؟"

”کیا سچ مچ اس میں خزانہ ہے؟“

اس پر مجاور پھر گرجنے برسنے لگا! فیاض بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا جارہا تھا عمران کو گئے ہوئے پندرہ منٹ ہو چکے تھے وہ مجاور کو باتوں میں الجھائے رہا.....اچانک ایک عجیب قسم کی آواز سنائی دی! مجاور اچھل کر مڑا....اسکی پشت کی طرف دیوار میں ایک بڑا سا خلا نظر آرہا تھا! فیاض بوکھلا کر

کھڑا ہو گیا وہ سوچ رہا تھا کہ یک بیک دیوار کو کیا ہو گیا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس کمرے میں آ چکا تھا لیکن اسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہاں کوئی چور دروازہ بھی ہو سکتا ہے! دفعتاً مجاور چیخ مار کر اس دروازے میں گھستا چلا گیا! فیاض بری طرح بوکھلا گیا تھا۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور پھر وہ بھی اسی دروازہ میں داخل ہو گیا!....یہاں چاروں طرف اندھیرا تھا! شائد وہ کسی تہہ خانے میں چل رہا تھا! کچھ دور چلنے کے بعد سیٹرھیاں نظر آئیں....یہاں قبرستان کی سی خاموشی تھی! فیاض سیٹرھیوں پر چڑھنے لگا اور جب وہ اوپر پہنچا تو اس نے خود کو مرشد مرد کی قبر سے بر آمد ہوتے پایا جس کا تعویذ کسی صندوق کے ڈھکن کی طرح سیدھا اٹھا ہوا تھا۔

ٹارچ کی روشنی کا دائرہ صحن میں چاروں طرف گردش کر رہا تھا پھر فیاض نے مجاور کو وارداتوں والے کمرے سے نکلتے دیکھا۔

"تم لوگوں نے مجھے برباد کر دیا!" وہ فیاض کو دیکھ کر چیخا۔ ”آؤ اپنے کرتوت دیکھ لو!" وہ پھر کمرے میں گھس گیا۔ فیاض تیزی سے اس کی طرف جھپٹا۔

ٹارچ کی روشنی دیوار پر پڑی۔ یہاں کا بہت سا پلاسٹر ادھڑا ہوا تھا اور اسی جگہ پانچ پانچ انچ کے فاصلے پر تین بڑی چھریاں نصب تھیں۔ فیاض آگے بڑھا!...ادھڑے ہوئے پلاسٹر کے پیچھے ایک بڑا سا خانہ تھا! اور ان چھریوں کے دوسرے سرے اس میں غائب ہو گئے تھے۔ ان چھریوں کے علاوہ اس خانے میں اور کچھ نہیں تھا۔

مجاور قہر آلود نظروں سے فیاض کو گھور رہا تھا!

"یہ سب کیا ہے؟" فیاض نے مجاور کو گھورتے ہوئے کہا۔

مجاور نے اس طرح کھنکار کر گلا صاف کیا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو لیکن خلاف توقع اس نے فیاض کے سینے پر ایک زور دار ٹکر ماری اور اچھل کر بھاگا! فیاض چاروں خانے چت گر گیا۔ سنبھلنے سے پہلے اس کا داہنا ہاتھ ہو لسٹر سے ریوالور نکال چکا تھا مگر بے کار، مجاور نے قبر میں چھلانگ لگادی تھی۔

فیاض اٹھ کر قبر کی طرف دوڑا....لیکن مجاور کے کمرے میں پہنچ کر بھی اسکا نشان نہ ملا۔ فیاض عمارت سے باہر نکل آیا ڈیوٹی کا نسٹیبل بدستور اپنی جگہوں پر موجود تھے انہوں نے بھی کسی بھاگتے ہوئے آدمی کے متعلق لاعلمی ظاہر کی! ان کا خیال تھا کہ عمارت سے کوئی باہر نکلا ہی نہیں۔

اچانک اسے عمران کا خیال آیا! آخر وہ کہاں گیا تھا کہیں یہ اسی کی حرکت نہ ہو اس خفیہ خانے میں کیا چیز تھی!....اب سارے معاملات فیاض کے ذہن میں صاف ہو گئے تھے !لاش کا راز، تین زخم....جن کا در میانی فاصلہ پانچ پانچ انچ تھا....دفعتاً کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔

فیاض چونک کر مڑا! عمران کھڑا بری طرح بسور رہا تھا!

"تو یہ تم تھے" فیاض اسے نیچے سے اوپر تک گھورتا ہوا بولا۔

"میں تھا نہیں بلکہ ہوں....توقع ہے کہ ابھی دو چار دن زندہ رہونگا۔“

”وہاں سے کیا نکالا تم نے۔"

"چوٹ ہو گئی پیارے فرماؤ۔“ عمران بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ ”وہ مجھ سے پہلے ہی ہاتھ صاف کر گئے۔ میں نے تو بعد میں ذرا اس خفیہ خانے کے میکنزم پر غور کرنا چاہا تھا کہ ایک کھٹکے کو ہاتھ لگاتے ہی قبر تڑخ گئی!"

"لیکن وہاں تھا کیا؟“

"وہ بقیہ کا غذات جو اس چرمی ہینڈ بیگ میں نہیں تھے۔“

"کیا؟ ارے او احمق پہلے ہی کیوں نہیں بتایا تھا؟" فیاض اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔ "لیکن وہ اندر گھسے کسی طرح۔"

"آؤ دکھاؤں۔" عمران ایک طرف بڑھتا ہوا بولا!-- وہ فیاض کو عمارت کے مغربی گوشے کی سمت لایا! یہاں دیوار سے ملی ہوئی قد آدم جھاڑیاں تھیں۔ عمران نے جھاڑیاں ہٹا کر ٹارچ روشن کی اور فیاض کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ دیوار میں اتنی بڑی نقب تھی کہ ایک آدمی بیٹھ کر بآسانی اس سے گذر سکتا تھا۔

"یہ تو بہت برا ہوا۔" فیاض بڑبڑایا۔

"اور وہ پہنچا ہوا فقیر کہاں ہے؟" عمران نے پوچھا۔

"وہ بھی نکل گیا! لیکن تم کس طرح اندر پہنچے تھے۔"

"اسی راستے سے! آج ہی مجھے ان جھاڑیوں کا خیال آیا تھا۔“

"اب کیا کرو گے بقیہ کا غذات!" فیاض نے بے بسی سے کہا۔

"بقیہ کاغذات بھی انہیں واپس کردوں گا۔ بھلا آدھے کاغذات کس کام کے۔ جس کے پاس بھی رہیں پورے رہیں۔ اس کے بعد میں باقی زندگی گزارنے کے لئے قبر اپنے نام الاٹ کرا لوں گا۔"

تبصرے