17: خفیہ کاغذات کا سراغ
خفیہ کاغذات کا سراغ
"تمہارے گھر والوں کو شبہ ہے کہ تم اپنا وقت آوارگی اور عیاشی میں گزارتے ہو! لیکن کسی کے پاس اس کا ٹھوس ثبوت نہیں....میں ثبوت مہیا کر دوں گا۔ ایک ایسی عورت کا انتظام کر لینا میرے لئے مشکل نہ ہو گا جو براہ راست تمہاری اماں بی کے پاس پہنچ کر اپنے لٹنے کی داستان بیان کر دے۔“
”اوہ!“ عمران نے تشویش آمیز انداز میں اپنے ہونٹ سکوڑ لئے پھر آہستہ سے بولا۔
"اماں بی کی جوتیاں آل پروف ہیں۔ خیر سوپر فیاض یہ بھی کر کے دیکھ لو تم مجھے ایک صابر و شاکر فرزند پاؤ گے!....لو چیونگم سے شوق کرو۔“
"اس گھر میں ٹھکانہ نہیں ہو گا تمہارا...." فیاض بولا۔
"تمہارا گھر تو موجود ہی ہے۔“ عمران نے کہا۔
"تو تم نہیں بتاؤ گے۔“
"ظاہر ہے۔"
"اچھا! تو اب تم ان معاملات میں دخل نہیں دو گے میں خود ہی دیکھ لوں گا۔“ فیاض اٹھتا ہوا خشک لہجے میں بولا۔ "اور اگر تم اس کے بعد بھی اپنی ٹانگ اڑائے رہے تو میں تمہیں قانونی گرفت میں لے لوں گا۔"
"یہ گرفت ٹانگوں میں ہوگی یا گردن میں!" عمران نے سنجیدگی سے پوچھا۔ چند لمحے فیاض کو گھورتا رہا پھر بولا۔ ” ٹھہرو!" فیاض رک کر اسے بے بسی سے دیکھنے لگا!....عمران نے الماری کھول کر وہی چرمی بیگ نکالا جسے وہ کچھ نامعلوم افراد کے درمیان سے پچھلی رات کو اڑا لایا تھا۔ اس نے ہینڈ بیگ کھول کر چند کاغذات نکالے اور فیاض کی طرف بڑھا دئیے۔ فیاض نے جیسے ہی ایک کاغذ کی تہہ کھولی بے اختیارا چھل پڑا....اب وہ تیزی سے دوسرے کاغذات پر بھی نظریں دوڑا رہا تھا۔
"یہ تمہیں کہاں سے ملے۔" فیاض تقریباً ہانپتا ہوا بولا۔ شدت جوش سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
"ایک ردی فروش کی دوکان پر....بڑی دشواریں سے ملے ہیں دو آنہ سیر کے حساب سے۔"
"عمران!...خدا کے لئے۔“ فیاض تھوک نگل کر بولا۔
"کیا کر سکتا ہے بچارہ عمران!" عمران نے خشک لہجے میں کہا۔ "وہ اپنی ٹانگیں اڑانے لگا تو تم اسے قانونی گرفت میں لے لو گے۔“
"پیارے عمران! خدا کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔"
"اتنا سنجیدہ ہوں کہ تم مجھے بی پی کی ٹافیاں کھلا سکتے ہو۔"
"یہ کاغذات تمہیں کہاں سے ملے ہیں؟“
"سڑک پر پڑے ہوئے ملے تھے! اور اب میں نے انہیں قانون کے ہاتھوں میں پہنچا دیا۔ اب قانون کا کام ہے کہ وہ ایسے ہاتھ تلاش کرے جن میں ہتھ کڑیاں لگا سکے....عمران نے اپنی ٹانگ
ہٹالی۔“
فیاض بے بسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا!
"لیکن اسے سن لو۔" عمران قہقہہ لگا کر بولا۔ ”قانون کے فرشتے بھی ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے!"
”اچھا تو یہی بتا دو کہ ان معاملات سے ان کاغذات کا کیا تعلق ہے؟" فیاض نے پوچھا۔
"یہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے۔“ عمران دفعتہ سنجیدہ ہو گیا۔ "اتنا میں جانتا ہوں کہ یہ کاغذات فارن آفس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا ان بد معاشوں کے پاس ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔“
"کن بد معاشوں کے پاس!" فیاض چونک کر بولا۔
”و ہی! اس عمارت میں ...!"
”میرے خدا!...." فیاض مضطر بانہ انداز میں بڑبڑایا۔ "لیکن تمہارے ہاتھ کس طرح لگے!“
عمران نے پچھلی رات کے واقعات دہرا دئیے! اس دوران میں فیاض بے چینی سے ٹہلتا رہا۔ کبھی کبھی وہ رک کر عمران کو گھورنے لگتا! عمران اپنی بات ختم کر چکا تو اس نے کہا۔
"افسوس! تم نے بہت برا کیا....تم نے مجھے کل یہ اطلاع کیوں نہیں دی۔“
"تو اب دے رہا ہوں اطلاع۔ اس مکان کا پتہ بھی بتا دیا جو کچھ بن پڑے کر لو۔" عمران نے کہا۔
"اب کیا وہاں خاک پھانکنے جاؤں؟"
"ہاں ہاں کیا حرج ہے۔“
"جانتے ہو یہ کاغذات کیسے ہیں؟“ فیاض نے کہا۔
"اچھے خاصے ہیں !ردی کے بھاؤ بک سکتے ہیں۔“
"اچھا تو میں چلا!" فیاض کاغذ سمیٹ کر چرمی بیگ میں رکھتا ہوا بولا۔
"کیا انہیں اسی طرح لے جاؤ گے؟" عمران نے کہا۔ ”نہیں ایسا نہ کرو مجھے تمہارے قاتلوں کا بھی سراغ لگانا پڑے۔“
"کیوں؟"
"فون کر کے پولیس کی گاڑی منگواؤ۔“ عمران ہنس کر بولا۔ "کل رات سے وہ لوگ میری تلاش میں ہیں۔ میں رات بھر گھر سے باہر ہی رہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت مکان کی نگرانی
ضرور ہو رہی ہو گی! خیر اب تم مجھے بتا سکتے ہو کہ کاغذات کیسے ہیں۔“
فیاض پھر بیٹھ گیا۔ وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔
"سات سال پہلے ان کا غذات پر ڈاکہ پڑا تھا؟ لیکن ان میں سب نہیں ہیں۔ فارن آفس کا ایک ذمہ دار آفیسر انہیں لے کر سفر کر رہا تھا....یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں اور کس مقصد سے جارہا
تھا کیونکہ یہ حکومت کا راز ہے۔ آفیسر ختم کر دیا گیا تھا اسکی لاش مل گئی تھی لیکن اسکے ساتھ سیکرٹ سروس کا ایک آدمی بھی تھا اسکے متعلق آج تک نہ معلوم ہو سکا....! شائد وہ بھی مار ڈالا گیا ہو....لیکن اس کی لاش نہیں ملی۔"
"با....تب تو یہ بہت بڑا کھیل ہے۔" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا! "لیکن میں جلد ہی اسے ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔“
"تم اب کیا کرو گے۔“
"ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا؟" عمران نے کہا۔ ”اور سنو ان کاغذات کو ابھی اپنے پاس ہی دبائے رہو اور ہینڈ بیگ میرے پاس رہنے دو۔ مگر نہیں اسے بھی لے جاؤ!....میرے ذہن میں کئی تدبیریں ہیں! اور ہاں....اس عمارت کے گرد دن رات پہرہ رہنا چاہیئے!"
"آخر کیوں؟"
"وہاں میں تمہارا مقبرہ بنواؤں گا۔" عمران جھنجھلا کر بولا۔
فیاض اٹھ کر پولیس کی کار منگوانے کے لئے فون کرنے لگا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں