16: لاش کا معمہ
لاش کا معمہ
دوسری صبح کیپٹن فیاض کے لئے ایک نئی دردسری لے کر آئی۔ حالات ہی ایسے تھے کہ براہِ راست اسے ہی اس معاملہ میں الجھنا پڑا۔ ورنہ پہلے تو معاملہ سول پولیس کے ہاتھ میں جاتا۔ بات یہ تھی کہ اس خوفناک عمارت سے قریباً ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلہ پر ایک نوجوان کی لاش پائی گئی۔ جس کے جسم پر کتھئی پتلون اور چمڑے کی جیکٹ تھی۔ کیپٹن فیاض نے عمران کی ہدایت کے مطابق پچھلی رات کو پھر عمارت کی نگرانی کے لئے کانسٹیبلوں کا ایک دستہ تعینات کرا دیا تھا! ان کی رپورٹ تھی کہ رات کو کوئی عمارت کے قریب نہیں آیا اور نہ انہوں نے قرب وجوار میں کسی قسم کی کوئی آواز ہی سنی لیکن پھر بھی عمارت سے تھوڑے فاصلہ پر صبح کو ایک لاش پائی گئی۔
جب کیپٹن فیاض کو لاش کی اطلاع ملی تو اس نے سوچنا شروع کیا کہ عمران نے عمارت کے گرد مسلح پہرہ بٹھانے کی تجویز کیوں پیش کی تھی؟
اس نے وہاں پہنچ کر لاش کا معائنہ کیا۔ کسی نے مقتول کی داہنی کن پٹی پر گولی ماری تھی! کانسٹیبلوں نے بتایا کہ انہوں نے پچھلی رات فائر کی آواز بھی نہیں سنی تھی۔
کیپٹن فیاض وہاں سے بوکھلایا ہوا عمران کی طرف چل دیا اس کی طبیعت بری طرح جھلائی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران نے کوئی ڈھنگ کی بات بتانے کی بجائے میر و غالب کے اوٹ پٹانگ شعر سنانا شروع کر دیئے تو کیا ہو گا بعض اوقات اس کی بےتکی باتوں پر اس کا دل چاہتا تھا کہ اسے گولی مار دے مگر اس شہرت کا کیا ہوتا۔ اس کی ساری شہرت عمران کے دم سے تھی وہ اس کے لئے اب تک کئی پیچیدہ مسائل سلجھا چکا تھا۔ بہر حال کام عمران کر تا تھا اور اخبارات میں نام فیاض کا چھپتا تھا!....یہی وجہ تھی کہ اسے عمران کا سب کچھ برداشت کرنا پڑتا تھا۔
عمران اسے گھر ہی پر مل گیا! لیکن عجیب حالت میں؟.... وہ اپنے نوکر سلیمان کے سر میں کنگھا کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ کسی دور اندیش ماں کے سے انداز میں اسے نصیحتیں بھی کئے جارہا تھا جیسے ہی فیاض کمرے میں داخل ہوا۔ عمران نے سلیمان کی پیٹھ پر گھونسہ جھاڑ کر کہا! "ابے تو
نے بتایا نہیں کہ صبح ہو گئی۔“
سلیمان ہنستا ہوا بھاگ گیا۔
"عمران تم آدمی کب بنو گے۔" فیاض ایک صوفے میں گرتا ہوا بولا۔
"آدمی بنے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا!... البتہ میں تھانیدار بننا ضرور پسند کروں گا۔“
"میری طرف سے جہنم میں جانا پسند کرو لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے پچھلی رات اس عمارت پر پہرہ کیوں لگوایا تھا۔“
”مجھے کچھ یاد نہیں۔“ عمران مایوسی سے سر ہلا کر بولا۔ ”کیا واقعی میں نے کوئی ایسی حرکت کی تھی۔"
”عمران" فیاض نے بگڑ کر کہا۔ "اگر میں آئندہ تم سے کوئی مدد لوں تو مجھ پر ہزار بار لعنت۔“
"ہزار کم ہے" عمران سنجیدگی سے بولا۔ ” کچھ اور بڑھو تو میں غور کرنے کی کوشش کروں گا۔“ فیاض کی قوت برداشت جواب دے گئی اور گرج کر بولا۔
"جانتے ہو ، آج صبح وہاں سے ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ایک لاش اور ملی ہے“
”ارے تو بہ۔" عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
کیپٹن فیاض کہتا رہا۔ ”تم مجھے اندھیرے میں رکھ کر نہ جانے کیا کرنا چاہتے ہو۔ حالات اگر اور بگڑے تو مجھے ہی سنبھالنے پڑیں گے لیکن کتنی پریشانی ہو گی۔ کسی نے اس کی داہنی کن پٹی پر گولی ماری ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ حرکت کس کی ہے۔"
”عمران کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے؟" عمران بڑ بڑایا پھر سنجیدگی سے پوچھا۔ "پہرہ تھا وہاں؟“
"تھا....میں نے رات ہی یہ کام کیا تھا!“
”پہرے والوں کی رپورٹ؟“
”کچھ بھی نہیں! انہوں نے فائر کی آواز بھی نہیں سنی۔“
"میں یہ نہیں پوچھ رہا.... کیا کل بھی کسی نے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔“
"نہیں...لیکن میں اس لاش کی بات کر رہا تھا۔“
"کئے جاؤ! میں تمہیں نہیں روکتا! لیکن میرے سوالات کے جوابات بھی دیئے جاؤ۔ قبر کے مجاور کی کیا خبر ہے!.....وہ اب بھی وہیں موجود ہے یا غائب ہو گیا ہے!"
"عمران خدا کے لئے تنگ مت کرو۔“
"اچھا تو علی عمران ایم ایس سی پی۔ ایچ۔ ڈی کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔“
"تم آخر اس خبطی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔“
"خیر جانے دو! اب مجھے اس کے متعلق کچھ اور بتاؤ۔“
"کیا بتاؤں!....بتا تو چکا....صورت سے برا آدمی نہیں معلوم ہو تا خوبصورت اور جوان،....جسم پر چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی رنگ کی پتلون!“
"کیا؟" عمران چونک پڑا! اور چند لمحے اپنے ہونٹ سیٹی بجانے والے انداز میں سکوڑے فیاض کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کہا۔
"'بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز'"
"کیا بکواس ہے“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔ ”اول تو تمہیں اشعار ٹھیک یاد نہیں پھر یہاں اس کا موقعہ کب تھا....عمران میرا بس چلے تو تمہیں گولی مار دوں۔“
"کیوں شعر میں کیا غلطی ہے۔"
"مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں لیکن مجھے دونوں مصرعے بے ربط معلوم ہوتے ہیں.....لا حول ولا قوۃ میں بھی انہیں لغویات میں الجھ گیا۔ خدا کے لئے کام کی باتیں کرو۔ تم نہ جانے کیا کر رہے ہو؟“
”میں آج رات کو کام کی بات کروں گا اور تم میرے ساتھ ہو گے لیکن ایک سیکنڈ کیلئے بھی وہاں سے پہرہ نہ ہٹایا جائے....تمہارے ایک آدمی کو ہر وقت مجاور کے کمرے میں موجود رہنا چاہئے! بس اب جاؤ....میں چائے پی چکا ہوں ورنہ تمہاری کافی مدارات کرتا۔ ہاں محبوبہ یک چشم کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ رقیب روسیاہ کا صفایا ہو گیا! باقی سب خیریت ہے۔“
”عمران میں آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا! تمہیں ابھی اور اسی وقت سب کچھ بتانا پڑے گا۔“
"اچھا تو سنو! لیڈی جہانگیر بیوہ ہونے والی ہے!....اس کے بعد تم کوشش کرو گے کہ میری شادی اس کے ساتھ ہو جائے....کیا سمجھے؟“
"عمران" فیاض یک بیک مار بیٹھنے کی حد تک سنجیدہ ہو گیا۔
"یس باس۔"
"بکواس بند کرو۔ میں اب تمہاری زندگی تلخ کر دوں گا۔“
”بھلا وہ کس طرح سو پر فیاض!“
"نہایت آسانی سے!" فیاض سگریٹ سلگا کر بولا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں