13: پوشیدہ کڑیاں
پوشیدہ کڑیاں
"ہاں کیوں؟"
وہ میرا رقیب ہے۔"
"ہوگا تمہیں کیا کروں۔"
"کسی طرح پتہ لگاؤ کہ وہ آج کل کہاں ہے۔"
"میرا وقت برباد نہ کرو۔" فیاض جھنجھلا گیا۔
"تب پھر تم بھی وہیں جاؤ جہاں شیطان قیامت کے دن جائے گا۔" عمران نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا جج صاحب کے گیراج کی طرف چلا گیا۔ یہاں سے رابعہ باہر جانے کے لیے کار نکال رہی تھی۔
عمران کھنکار کر بولا۔ "شاید ہمارا تعارف پہلے بھی ہو چکا ہے۔" "اوہ جی ہاں جی ہاں۔" رابعہ جلدی سے بولی۔
"کیا اپ مجھے لفٹ دینا پسند کریں گی۔"
"شوق سے آئیے....!"
رابعہ خود ڈرائیو کر رہی تھی! عمران شکریہ ادا کر کے اس کے برابر بیٹھ گیا۔
"کہاں اترئیے گا۔" رابیہ نے پوچھا
"سچ پوچھئے تو میں اترنا ہی نہ چاہوں گا۔"
رابعہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔ اس وقت اس نے ایک مصنوعی انکھ لگا رکھی تھی اس لیے انکھوں پر عینک نہیں تھی۔
،"فیاض کی بیوی نے اسے عمران کے متعلق بہت کچھ بتایا تھا۔ اس لیے وہ اسے احمق سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی....!
"کیا آپ کچھ ناراض ہیں۔" عمران نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
"جی!" رابعہ چونک پڑی۔ "نہیں تو۔"....پھر ہنسنے لگی۔
"میں نے کہا شاید، مجھ سے لوگ عموماً ناراض رہا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں انہیں خواہ مخواہ غصہ دلا دیتا ہوں۔"
"پتہ نہیں مجھے تو اپ نے ابھی تک غصہ نہیں دلایا۔"
"تب تو یہ میری خوش قسمتی ہے۔" عمران نے کہا۔ "ویسے اگر میں کوشش کروں تو اپ کو غصہ دلا سکتا ہوں۔"
رابعہ پھر ہنسنے لگی! "کیجئے کوشش!" اس نے کہا۔
"اچھا تو آپ شاید یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے۔" عمران نے احمقوں کی طرح ہنس کر کہا۔
"میں تو یہی سمجھتی ہوں۔ مجھے غصہ کبھی نہیں آتا۔"
"اچھا تو سنبھلیے!" عمران نے اس طرح کہا جیسے ایک شمشیر زن کسی دوسرے شمشیر زن کو لکارتا ہوا کسی گھٹیا سی فلم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
رابعہ کچھ نہ بولی۔ وہ کچھ بور سی ہونے لگی تھی۔
"آپ چودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھیں۔" عمران نے اچانک پوچھا۔
"جی....." رابعہ بے اختیار چونک پڑی۔
"اوہ! اسٹیرنگ سنبھالیے! کہیں کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے!" عمران بولا "دیکھیے میں نے آپ کو غصہ دلا دیا نا۔" پھر اس نے ایک زوردار لگایا اور اپنی ران پیٹنے لگا۔
رابعہ کی سانس پھولنے لگی تھی اور اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پر کانپ رہے تھے۔
"دیکھیے۔" اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔ "مجھے جلدی ہے....واپس جانا ہوگا....آپ کہاں اتریں گے۔"
"آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔" عمران پرسکون لہجے میں بولا۔
"آپ سے مطلب! اپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔"
"دیکھا....آگیا غصہ! ویسے یہ بات بہت اہم ہے اگر پولیس کے کانوں تک جا پہنچی تو زحمت ہوگی! ممکن ہے میں کوئی ایسی کاروائی کر سکوں جس کی بنا پر پولیس یہ سوال ہی نہ اٹھائے۔"
رابعیہ کچھ نہ بولی وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔
"میں یہ بھی نہ پوچھوں گا کہ آپ کہاں تھیں۔" عمران نے پھر کہا۔ "کیونکہ مجھے معلوم ہے مجھے آپ صرف اتنا بتا دیجیے کہ آپ کے ساتھ کون تھا؟"
"مجھے پیاس لگ رہی ہے۔" رابعہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
"اوہو! تو روکیے.... کیفے نبراسکا نزدیک ہی ہے۔"
کچھ اگے چل کر رابعہ نے کار کھڑی کر دی اور وہ دونوں اتر کر فٹ پاتھ سے گزرتے ہوئے کیفے نبراسکا میں چلے گئے۔
عمران نے ایک خالی گوشہ منتخب کیا! اور وہ بیٹھ گئے!....چائے سے پہلے عمران نے ایک گلاس ٹھنڈے پانی کے لیے کہا۔
"مجھے یقین ہے کہ واپسی میں کنجی اس کے پاس رہ گئی ہو گی۔" عمران نے کہا۔
"کس کے پاس؟" رابعی پھر چونک پڑی۔
"فکر نہ کیجیے! مجھے یقین ہے کہ اس نے آپ کو اپنا صحیح نام اور پتہ ہرگز نہ بتایا ہوگا اور کنجی واپس کر دینے کے بعد سے اب تک ملا بھی نہ ہوگا۔"
رابعہ بالکل نڈھال ہو گئی اس نے مردہ سی آواز میں کہا۔ "پھر اب آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔"
"آپ اس سے کب اور کن حالات میں ملی تھیں۔"
"اب سے دو ماہ پیشتر!"
"کہاں ملا تھا۔"
"ایک تقریب میں! مجھے یہ یاد نہیں کہ کس نے تعارف کرایا تھا۔"
"تقریب کہاں تھی۔"
"شاید سر جہانگیر کی سالگرہ کا موقع تھا۔"
"اوہ!"....عمران کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے اہستہ سے کہا۔ "کنجی آپ کو اس نے کب واپس کی تھی۔"
"پندرہ کی شام کو۔"
"اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی۔" عمران نے کہا۔
رابعہ بری طرح ہانپنے لگی۔ وہ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر کرسی کی پشت سے ٹک گئی۔ اس کی حالت باز کے پنجے میں پھنسی ہوئی کسی ننھی منی چڑیا سے مشابہ تھی۔
"پندرہ کے دن بھر کنجی اس کے پاس رہی! اس نے اس کی ایک نقل تیار کرا کے کنجی آپ کو واپس کر دی! اس کے بعد پھر وہ آپ سے نہیں ملا۔ غلط کہہ رہا ہوں؟"
"ٹھیک ہے۔" وہ آہستہ سے بولی۔ "وہ مجھ سے کہا کرتا تھا کہ وہ ایک سیاح ہے! جعفریہ ہوٹل میں قیام پذیر ہے....لیکن پرسوں میں وہاں گئی تھی...."
وہ خاموش ہو گئی۔ اس پر عمران نے سر ہلا کر کہا۔ "اور آپ کو وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی آدمی وہاں کبھی ٹھہرا ہی نہیں۔"
"جی ہاں۔" رابعہ سر جھکا کر بولی۔
"آپ سے اس کی دوستی کا مقصد محض اتنا ہی تھا کہ وہ کسی طرح آپ سے اس عمارت کی کنجی حاصل کر لے۔"
"میں گھر جانا چاہتی ہوں....میں طبیعت ٹھیک نہیں۔"
"دو منٹ۔" عمران نے ہاتھ ہلا کر کہا۔ "آپ کی زیادہ تر ملاقاتیں کہاں ہوتی تھیں۔"
"ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں!"
"لیڈی جہانگیر سے اس کے تعلقات کیسے تھے؟"
"لیڈی جہانگیر...." رابعہ چڑ کر بولی۔ "آخر ان معاملات میں آپ ان کا نام کیوں لے رہے ہیں۔"
"کیا آپ میرے سوال کا جواب نہ دیں گی؟" عمران نے بڑی شرافت سے پوچھا۔
"نہیں! میرا خیال ہے کہ میں نے ان دونوں کو کبھی نہیں ملتے دیکھا۔"
"شکریہ! اب میں اس کا نام نہیں پوچھوں گا! ظاہر ہے کہ اس نے نام بھی صحیح نہ بتایا ہوگا....لیکن اگر آپ اس کا حلیہ بتا سکیں تو مشکور ہوں گا۔"
رابعہ کو بتانا ہی پڑا۔ لیکن وہ بہت زیادہ مغموم تھی اور ساتھ ہی ساتھ خائف بھی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں