14: بےقرار روبرو

 بےقرار روبرو

Chapter 14 Feature Image

عمران فٹ پاتھ پر تنہا کھڑا تھا!--رابعہ کی کار جا چکی تھی۔ اس نے جیب سے ایک چیونگم نکالی اور منہ میں ڈال کر دانتوں سے اسے کچلنے لگا.... غور و فکر کے عالم میں چونگم اس کا بہترین رفیق ثابت ہوتا تھا.... جاسوسی ناولوں کے سراغ رسانوں کی طرح نہ اسے سگار سے دلچسپی تھی اور نہ پائپ سے! شراب بھی نہیں پیتا تھا۔
اس کے ذہن میں اس وقت کئی سوال تھے اور وہ فٹ پاتھ کے کنارے پر اس طرح کھڑا ہوا تھا جیسے سڑک پار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو.... مگر یہ حقیقت تھی کہ اس کے ذہن میں اس قسم کا کوئی خیال نہیں تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ان معاملات سے سر جہانگیر کا تعلق ہو سکتا ہے دوسری لاش کے قریب اسے کاغذ کا جو ٹکڑا ملا تھا وہ سر جہانگیر ہی کے رائٹنگ پیڈ کا تھا۔ رابعہ سے پراسرار نوجوان کی ملاقات بھی سر جہانگیر ہی کے یہاں ہوئی تھی اور لیڈی جہانگیر نے جس خوبصورت نوجوان کا تذکرہ کیا تھا وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا.... لیکن لیڈی جہانگیر بھی اس سے واقف نہیں تھی۔ لیڈی جہانگیر کی یہ بات بھی سچ تھی کہ اگر وہ شہر کے کسی ذی حیثیت خاندان کا فرد ہوتا تو لیڈی جہانگیر اس سے ضرور واقف ہوتی! فرض کیا کہ اگر لیڈی جہانگیر بھی کسی سازش میں شریک تھی تو اس نے اس کا تذکرہ عمران سے کیوں کیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی دوسری زندگی سے واقف نہ رہی ہو۔ لیکن پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے تذکرہ کیا ہی کیوں؟ کیا وہ کوئی ایسی اہم بات نہ تھی! سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کے چکر میں رہے ہوں گے۔ چاہے وہ پانی بھرنے کے مشکیزے سے بھی بدتر کیوں نہ ہوں! پھر ایک سوال اس کے ذہن میں اور ابھرا! اخر اس کجاور نے پولیس کو رابع کے متعلق کیوں نہیں بتایا تھا....قبر اور لاش کے متعلق تو اس نے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ فکر اس بات کی تھی کہ وہ لوگ کون ہیں اور اس مکان میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں اگر وہ سر جہانگیر ہی ہے تو اس کا اس عمارت سے کیا تعلق؟-- سر جہانگیر سے وہ اچھی طرح واقف تھا لیکن یوں بھی نہیں کہ اس پر کسی قسم کا شبہ کر سکتا۔ سر جہانگیر شہر کے معزز ترین لوگوں میں تھا۔ نہ صرف معزز بلکہ نیک نام بھی!
تھوڑی دیر بعد عمران سڑک پار کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ رکتی ہوئی کار اس کی راہ میں حائل ہو گئی۔ یہ رابعہ ہی کی کار تھی۔
"خدا کا شکر ہے کہ آپ مل گئے۔" اس نے کھڑکی سے سر نکال کر کہا۔
"میں جانتا تھا کہ آپ کو پھر میری ضرورت محسوس ہوگی!" عمران نے کہا اور کار دروازہ کھول کر رابعہ کے برابر بیٹھ گیا!....کار پھر چل پڑی۔
"خدا کے لیے مجھے بچائیے۔" رابعہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ "میں ڈوب رہی ہوں!"
"تو کیا آپ مجھے تنکا سمجھتی ہیں۔" عمران نے قہقہہ لگایا۔
"خدا کے لیے کچھ کیجئے۔ اگر ڈیڈی کو اس کا علم ہو گیا تو....؟"
"نہیں ہونے پائے گا۔" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ "آپ لوگ مردوں کے دوش بدوش جھک مارنے میدان میں نکلی ہیں....مجھے خوشی ہے....لیکن اپ نہیں جانتی کہ مرد ہر میدان میں آپ کو الو بناتا ہے....ویسے معاف کیجیے مجھے نہیں معلوم کہ الو کی مادہ کو کیا کہتے ہیں۔"
رابعہ کچھ نہ بولی اور عمران کہتا رہا۔ "خیر بھول جائیے اس بات کو۔ میں کوشش کروں گا کہ اس ڈرامے میں آپ کا نام نہ آنے پائے! اب تو آپ مطمئن ہیں نا....گاڑی روکیے....اچھا ٹاٹا...."
"ارے!" رابعہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اس نے پورے بریک لگا دیے۔
"کیا ہوا!" عمران گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
"وہی ہے۔" رابعہ بڑبڑائی۔ "اترئیے....میں اسے بتاتی ہوں۔"
"کون ہے۔ کیا بات ہے۔"
"وہی جس نے مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے۔"
"کہاں ہے۔"
"وہ....اس بار میں ابھی ابھی گیا ہے، وہی تھا....چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی پتلون میں...."
"اچھا تو آپ جائیے! میں دیکھ لوں گا!"
"نہیں میں بھی...."
"جاؤ!" عمران انکھیں نکال کر بولا! رابعہ سہم گئی! اس وقت احمق عمران کی انکھیں اس سے بڑی خوفناک معلوم ہوئیں۔ اس نے چپ چاپ کار موڑ لی۔
عمران بار میں گھسا!....بتائے ہوئے آدمی کو تلاش کرنے میں دیر نہیں لگی۔ وہ ایک میز پر تنہا بیٹھا تھا۔ وہ گھٹیلے جسم کا ایک خوشرو جوان تھا۔ پیشانی کشادہ اور چوٹ کے نشانات سے داغدار تھی۔ شاید وہ سر کو دائیں جانب تھوڑا سا جھکائے رکھنے کا عادی تھا۔ عمران اس کے قریب ہی میز پر بیٹھ گیا۔
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو! کچھ مضطرب بھی تھا۔ عمران نے پھر ایک چیونگم نکال کر منہ میں ڈال لیا!
اس کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی چمڑے کی جیکٹ والے کے پاس آ کر بیٹھ گیا! اور پھر عمران نے اس کے چہرے سے اضطراب کے آثار غائب ہوتے دیکھے۔
"سب چوپٹ ہو رہا ہے!" چمڑے کی جیکٹ والا بولا۔
"اس بڈھے کو خبط ہو گیا ہے!" دوسرے آدمی نے کہا۔
عمران ان کی گفتگو صاف سن سکتا تھا! جیکٹ والا چند لمحے پر خیال انداز میں اپنی ٹھوڑی کھجلاتا رہا پھر بولا۔
"مجھے یقین ہے کہ اس کا خیال غلط نہیں ہے! وہ سب کچھ وہیں ہے لیکن ہمارے ساتھی بودے ہیں۔ آوازیں سنتے ہی ان کی روح فنا ہو جاتی ہے۔"
"لیکن بھئی!....آخر وہ آوازیں ہیں کیسی!"
"کیسی ہی کیوں نہ ہوں! ہمیں ان کی پرواہ نہ کرنی چاہیے۔"
"اور وہ دونوں کس طرح مرے۔"
"یہ چیز!" جیکٹ والا کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ "ابھی تک میری سمجھ میں نہ آ سکی! مرتا وہی ہے جو کام شروع کرتا ہے۔ یہ ہم شروع ہی سے دیکھتے رہے ہیں۔"
"پھر ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔" دوسرے آدمی نے کہا۔
"ہمیں آج یہ معاملہ طے ہی کر لینا ہے!" جیکٹ والا بولا۔ "یہ بھی بڑی بات ہے کہ وہاں پولیس کا پہرہ نہیں ہے۔"
"لیکن اس رات کو ہمارے علاوہ اور کوئی بھی وہاں تھا مجھے تو اسی آدمی پر شبہ ہے جو باہر والے کمرے میں رہتا ہے۔"
"اچھا اٹھو! ہمیں وقت نہ برباد کرنا چاہیے۔"
"کچھ پی تو لیں! میں بہت تھک گیا ہوں....کیا پیو گے....وہسکی یا کچھ اور"
پھر وہ دونوں پیتے رہے اور عمران اٹھ کر قریب ہی کے ایک پبلک ٹیلی فون بوتھ میں چلا گیا! دوسرے لمحے میں وہ فیاض کے نجی فون نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
"ہیلو! سوپر.....ہاں میں ہی ہوں! خیریت کہاں....زکام ہو گیا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ میں جوشاندہ پی لوں!....ارے تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے.... دیگر احوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر اس عمارت کے گرد مصلح پہرہ لگ جانا چاہیے....بس بس آگے مت پوچھو! اگر اس کے خلاف ہوا تو آئندہ شرلاک ہومز ڈاکٹر واٹسن کی مدد نہیں کرے گا۔"

تبصرے