12: ماضی کی سرگوشیاں، اسرار کا پردہ
ماضی کی سرگوشیاں، اسرار کا پردہ
اسی شام کو عمران اور فیاض جج صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے ان کی لڑکی بھی موجود تھی اور اس نے اس وقت بھی سیاہ رنگ کی عینک لگارکھی تھی۔ عمران بار بار اس کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھر رہا تھا! فیاض کبھی کبھی رابعہ کی نظر بچا کر اسے گھورنے لگتا۔
تھوڑی دیر بعد جج صاحب آگئے اور رابعہ اٹھ کر چلی گئی۔
بڑی تکلیف ہوئی آپ کو!“ فیاض بولا۔
"کوئی بات نہیں فرمائیے۔“
"بات یہ ہے کہ میں ایاز کے متعلق مزید معلومات چاہتا ہوں۔“
”میرا خیال ہے کہ میں آپ کو سب کچھ بتا چکا ہوں ۔ “
”میں اسکے خاندانی حالات معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ اسکے اعزہ سے مل سکوں۔“
"افسوس کہ میں اسکی بابت کچھ نہ بتا سکوں گا۔" جج صاحب نے کہا۔ "بات آپ کو عجیب معلوم ہوگی لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اسکے متعلق کچھ نہیں جانتا حالا نکہ ہم گہرے دوست تھے۔“
"کیا آپ یہ بھی نہ بتا سکیں گے کہ وہ باشندہ کہاں کا تھا۔“
"افسوس میں یہ بھی نہیں جانتا۔“
"بڑی عجیب بات ہے۔ اچھا پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔“
"انگلینڈ میں۔"
فیاض بے اختیار چونک پڑا....لیکن عمران بالکل ٹھس بیٹھا رہا۔ اس کی حالت میں ذرہ برابر بھی کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
"کب کی بات ہے۔" فیاض نے پوچھا۔
" تیس سال پہلے کی! اور یہ ملاقات بڑے عجیب حالات میں ہوئی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آکسفورڈ میں قانون پڑھ رہا تھا۔ ایک بار ایک ہنگامے میں پھنس گیا۔ جس کی وجہ سو فیصدی غلط فہمی تھی۔ اب سے تیس سال پہلے کا لندن نفرت انگیز تھا انتہائی نفرت انگیز.....اسی سے اندازہ لگائیے کہ وہاں کے ایک ہوٹل پر ایک ایسا سائن بورڈ تھا جس پر تحریر تھا۔
”ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے.....!" میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی ہے یا نہیں....بہر حال ایسے ماحول میں اگر کسی ہندوستانی اور کسی انگریز کے درمیان میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو انجام ظاہر ہی ہے۔ وہ ایک ریسٹوران تھا جہاں ایک انگریز سے میرا جھگڑا ہو گیا۔ علاقہ ایسٹ اینڈ کا تھا جہاں زیادہ تر جنگلی ہی رہا کرتے تھے! آج بھی جنگلی ہی رہتے ہیں! انتہائی غیر مہذب لوگ جو جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں! اوہ میں خواہ مخواہ بات کو طوالت دے رہا ہوں! مطلب یہ کہ جھگڑا بڑھ گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود ہی کسی طرح جان بچا کر نکل
جانا چاہتا تھا!....اچانک ایک آدمی بھیٹر کو چیرتا ہوا میرے پاس پہنچ گیا۔ وہ ایاز تھا۔ اسی دن میں نے اسے پہلے پہل دیکھا....اور اس روپ میں دیکھا کہ آج تک متحیر ہوں....وہ مجمع جو مجھے مار ڈالنے پر تل گیا تھا ایاز کی شکل دیکھتے ہی تتر بتر ہو گیا! ایسا معلوم ہوا جیسے بھیڑوں کے گلے میں کوئی بھیڑیا گھس آیا ہو....بعد کو معلوم ہوا کہ ایاز اس علاقے کے بااثر لوگوں میں سے تھا....ایسا کیوں تھا یہ مجھے آج تک نہ معلوم ہو سکا....ہمارے تعلقات بڑھے اور بڑھتے چلے گئے۔ لیکن میں
اس کے متعلق کبھی کچھ نہ جان سکا۔ وہ ہندوستانی ہی تھا لیکن مجھے یہاں تک بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کس صوبے یا شہر کا باشندہ تھا۔“
جج صاحب نے خاموش ہو کر ان کی طرف سگار کیس بڑھایا۔ عمران خاموش بیٹھا چھت کی طرف گھور رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا۔ جیسے فیاض زبر دستی کسی بیوقوف کو پکڑ لایا ہوا! بیوقوف ہی نہیں بلکہ ایسا آدمی جو ان کی گفتگو ہی سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو! فیاض نے کئی بار اسے کنکھیوں سے دیکھا بھی لیکن خاموش ہی رہا۔
"شکریہ!" فیاض نے سگار لیتے ہوئے کہا اور پھر عمران کی طرف دیکھ کر بولا ”جی یہ نہیں پیتے۔“
اس پر بھی عمران نے چھت سے اپنی نظریں نہ ہٹائیں ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا ہو! جج صاحب نے بھی عجیب نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔ لیکن کچھ بولے نہیں۔
اچانک عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر "اللّٰہ" کہا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ منہ چلاتا ہوا ان دونوں کو احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
اس پر بھی فیاض کو خوشی ہوئی کہ جج صاحب نے عمران کے متعلق کچھ نہیں پوچھا! فیاض کوئی دوسرا سوال سوچ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ دعا بھی کر رہا تھا کہ عمران کی زبان بند ہی رہے تو بہتر ہی ہے مگر شائد عمران چہرہ شناسی کا بھی ماہر تھا کیونکہ دوسرے ہی لمحہ میں اس نے بکنا شروع کر دیا۔
”ہاں صاحب! اچھے لوگ بہت کم زندگی لے کر آتے ہیں! ایاز صاحب تو ولی اللہ تھے۔
'چرخ کج رفتار و ناہنجار کب کسی کو....' غالب کا شعر ہے!“
لیکن قبل اس کے عمران شعر سناتا فیاض بول پڑا۔ ”جی ہاں قصبے والوں میں کچھ اسی قسم کی افواہ ہے"
"بھئی یہ بات تو کسی طرح میرے حلق سے نہیں اترتی! سنا میں نے بھی ہے۔" جج صاحب بولے! "اس کی موت کے بعد قصبے کے کچھ معزز لوگوں سے ملا بھی تھا انہوں نے بھی یہی خیال ظاہر کیا تھا کہ وہ کوئی پہنچا ہوا آدمی تھا لیکن میں نہیں سمجھتا۔ اس کی شخصیت پر اسرار ضرور تھی....مگر ان معنوں میں نہیں!“
"اس کے نوکر کے متعلق کیا خیال ہے جو قبر کی مجاوری کرتا ہے۔" فیاض نے پوچھا۔
"وہ بھی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔" عمران تڑ سے بولا۔ اور جج صاحب پھر اسے گھور نے لگے لیکن اس بار بھی انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔
"کیا وصیت نامے میں یہ بات ظاہر کر دی گئی ہے کہ قبر کا مجاور عمارت کے بیرونی کمرے پر قابض رہے گا۔“ فیاض نے جج صاحب سے پوچھا۔
"جی ہاں! قطعی!" جج صاحب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”بہتر ہو گا اگر ہم دوسری باتیں کریں! اس عمارت سے میرا بس اتنا ہی تعلق ہے کہ میں قانونی طور پر اس کا مالک ہوں۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میرے گھر کے کسی فرد نے آج تک اس میں قیام نہیں کیا۔“
"کوئی کبھی ادھر گیا بھی نہ ہوگا!" فیاض نے کہا۔
"بھئی کیوں نہیں! شروع میں تو سب ہی کو اس کو دیکھنے کا اشتیاق تھا! ظاہر ہے کہ وہ ایک حیرت انگیز طریقے سے ہماری ملکیت میں آئی تھی۔“
"ایاز صاحب کے جنازے پر نور کی بارش ہوئی تھی۔“ عمران نے پھر ٹکڑا لگایا۔
"مجھے پتہ نہیں۔“ جج صاحب بیزاری سے بولے۔ “میں اس وقت وہاں پہنچا تھا جب وہ دفن کیا جا چکا تھا۔“
”میرا خیال ہے کہ وہ عمارت آسیب زدہ ہے۔“ فیاض نے کہا۔
"ہو سکتا ہے! کاش وہ میری ملکیت نہ ہوتی! کیا اب آپ لوگ مجھے اجازت دیں گے۔“
"معاف کیجئے گا۔" فیاض اٹھتا ہوا بولا۔ ”آپ کو بہت تکلیف دی مگر معاملہ ہی ایسا ہے۔“
فیاض اور عمران باہر نکلے! فیاض اس پر جھلایا ہوا تھا۔ باہر آتے ہی برس پڑا۔
"تم ہر جگہ اپنے گدھے پن کا ثبوت دینے لگتے ہو۔"
”اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمہیں گولی مار دوں۔“ عمران بولا۔
”کیوں میں نے کیا کیا ہے؟“
"تم نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ محبوبہ یک چشم چودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھی۔"
"کیوں بور کرتے ہو! میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔“
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں