22: آخری کھیل
آخری کھیل
دوسرے دن کیپٹن فیاض عمران کے کمرے میں بیٹھا اسے تحیرآمیز نظروں سے گھور رہا تھا اور عمران بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ "مجھے خوشی ہے کہ ایک بڑا غدار اور وطن فروش میرے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ سر جہانگیر جیسا معزز اور نیک نام آدمی بھی کسی غیر ملک کا جاسوس ہو سکتا ہے۔“
"مگر وہ قبر کا مجاور کون تھا۔“ فیاض نے بے صبری سے پوچھا۔
”میں بتاتا ہوں۔ لیکن درمیان میں ٹوکنا مت....وہ بیچارہ اکیلے ہی یہ مرحلہ طے کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اسکا کھیل بگاڑ دیا....پچھلی رات وہ مجھے ملا تھا....اس نے پوری داستان دہرائی....اور اب شائد ہمیشہ کے لئے روپوش ہو گیا ہے۔ اسے بڑی زبردست شکست ہوئی ہے۔ اب وہ کسی کو منہ نہیں دکھانا چاہتا۔“
"مگر وہ ہے کون؟"
"ایاز....چونکو نہیں میں بتاتا ہوں! یہی ایاز وہ آدمی تھا جو فارن آفس کے سیکرٹری کے ساتھ کاغذات سمیت سفر کر رہا تھا! آدھے کاغذات اسکے پاس تھے اور آدھے سیکرٹری کے پاس!
ان پر ڈاکہ پڑا۔ سیکرٹری مارا گیا اور ایاز کسی طرح بچ گیا۔ مجرموں کے ہاتھ صرف آدھے کاغذات لگے! ایاز فارن آفس کی سیکرٹ سروس کا آدمی تھا۔ وہ بچ گیا۔ لیکن اس نے آفس کو
رپورٹ نہیں دی! وہ دراصل اپنے زمانے کا مانا ہوا آدمی تھا اسلئے اس شکست نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ مجرموں سے آدھے کاغذات وصول کئے بغیر آفس میں نہ پیش ہو۔ وہ جانتا تھا کہ آدھے کاغذات مجرموں کے کسی کام کے نہیں! وہ بقیہ آدھے کا غذات کے لئے اسے ضرور تلاش کریں گے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے مجرموں کا پتہ لگا لیا۔ لیکن ان کے سرغنہ کا سراغ نہ مل سکا! وہ حقیقتاً سرغنہ ہی کو پکڑنا چاہتا تھا!....دن گزرتے گئے لیکن ایاز کو کامیابی نہ ہوئی پھر اس نے ایک نیا جال بچھایا! اس نے وہ عمارت خرید لی اور اس میں اپنے ایک وفادار نوکر کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگا۔ اس دوران میں اس نے اپنی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک قبر دریافت کی اور وہ سارا میکنزم ترتیب دیا۔ اچانک اسی زمانے میں اس کا نوکر بیمار ہو کر مر گیا۔ ایاز کو ایک دوسری ترکیب سوجھ گئی اس نے نوکر پر میک اپ کر کے اسے دفن کر دیا اور اس کے بھیس میں رہنے لگا! اس کارروائی سے پہلے اس نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کے نام منتقل کر دی اور صرف ایک کمرہ رہنے دیا.....اس کے بعد ہی اس نے مجرموں کو اس عمارت کی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا۔ کچھ ایسے طریقے اختیار کئے کہ مجرموں کو یقین ہو گیا کہ مرنے والا سیکرٹ سروس ہی کا
آدمی تھا اور بقیہ کا غذات وہ اسی عمارت میں کہیں چھپا کر رکھ گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ان لوگوں کی رسائی اس کمرے تک ہوئی جہاں ہم نے لاشیں پائیں! دیوار والے خفیہ خانے میں سچ مچ کاغذات تھے!....اس کا اشارہ بھی انہیں ایاز کی ہی طرف سے ملا تھا۔ جیسے ہی کوئی آدمی خانے والی دیوار کے نزدیک پہنچتا تھا۔ ایاز قبر کے تعویذ کے نیچے سے ڈراؤنی آوازیں نکالنے لگتا تھا اور دیوار کے قریب پہنچا ہوا آدمی سہم کر دیوار سے چپک جاتا.....ادھر ایاز قبر کے اندر سے میکنزم کو
حرکت میں لاتا اور دیوار سے تین چھریاں نکل کر اس کی پشت میں پیوست ہو جاتیں....یہ سب اس نے محض سرغنہ کو پکڑنے کے لئے کیا تھا. لیکن سرغنہ میرے ہاتھ لگا....اب ایاز شائد زندگی بھر اپنے متعلق کسی کو کوئی اطلاع نہ دے! اور کیپٹن فیاض.... میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اس کا نام کیس کے دوران میں کہیں نہ آنے پائے گا! سمجھے! اور تمہیں میرے وعدے کا پاس کرنا پڑے گا اور تم اپنی رپورٹ اس طرح مرتب کرو کہ اس میں کہیں محبوبہ یک چشم کا نام بھی نہ آنے پائے۔“
"وہ تو ٹھیک ہے۔" فیاض جلدی سے بولا! "وہ دس ہزار روپے کہاں ہیں جو تم نے سر جہا نگیر سے وصول کئے تھے۔“
"ہاں ٹھیک ہے۔" عمران اپنے دیدے پھرا کر بولا۔ "آدھا آدھا بانٹ لیں کیوں؟“
"بکواس ہے اسے میں سرکاری تحویل میں دوں گا۔“ فیاض نے کہا۔
"ہر گز نہیں!" عمران نے جھپٹ کر وہ چرمی ہینڈ بیگ میز سے اٹھا لیا جو اسے پچھلی رات سر جہانگیر کے ایک آدمی سے ملا تھا۔
فیاض نے اس سے ہینڈ بیگ چھین لیا....اور پھر وہ اسے کھولنے لگا۔
"خبر دار ہوشیار ...." عمران نے چوکیداروں کی طرح ہانک لگائی لیکن فیاض ہینڈ بیگ کھول چکا تھا....اور پھر جو اس نے ”ارے باپ " کہہ کر چھلانگ لگائی ہے تو ایک صوفے ہی پر جا کر پناہ لی۔ ہینڈ بیگ سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ نکل کر فرش پر رینگ رہا تھا۔
"ارے خدا تجھے غارت کرے عمران کے بچے....کمینے!" فیاض صوفے پر کھڑا ہو کر دھاڑا۔
سانپ پھن کاڑھ کر صوفے کی طرف لپکا فیاض نے چیخ مار کر دوسری کرسی پر چھلانگ لگائی....کرسی الٹ گئی اور وہ منہ کے بل فرش پر گرا....اس بار اگر عمران نے پھرتی سے اپنے جوتے کی ایڑی سانپ کے سر پر نہ رکھ دی ہوتی تو اس نے فیاض کو ڈس ہی لیا ہو تا۔ سانپ کا بقیہ جسم عمران کی پنڈلی سے لپٹ گیا اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔
اوپر سے فیاض اس پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے دونوں سے اپنا پیچھا چھڑایا۔
"تم بالکل پاگل ہو....دیوانے....وحشی۔" فیاض ہانپتا ہوا بولا۔
"میں کیا کروں جانِ من- خیر اب تم اسے سرکاری تحویل میں دے دو اگر کہیں میں رات کو ذرا سا بھی چوک گیا ہوتا تو اس نے مجھے اللہ میاں کی تحویل میں پہنچا دیا تھا!“
"کیاسر جهانگیر.....؟"
"ہاں....ہم دونوں میں مینڈکوں اور سانپوں کا تبادلہ ہوا تھا!" عمران نے کہا اور مغموم انداز میں چیونگم چبانے لگا اور پھر اس کے چہرے پر وہی پرانی حماقت طاری ہو گئی۔۔!
ختم شد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں