20: عمران اور خفیہ معاہدہ
عمران اور خفیہ معاہدہ
عمران کے کمرے میں فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی تھی! وہ قریب ہی بیٹھا ہوا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گھنٹی کی طرف دھیان تک نہ دیا پھر آخر گھنٹی جب بجتی ہی چلی گئی تو وہ کتاب میز پر پٹخ کر اپنے نوکر سلیمان کو پکار نے لگا۔
"جی سرکار!" سلیمان کمرے میں داخل ہو کر بولا۔
"ابے دیکھ یہ کون الو کا پٹھا گھنٹی بجا رہا ہے۔"
" سر کار فون ہے۔"
"فون"عمران چونک کر فون کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ "اسے اٹھا کر سڑک پر پھینک دے۔“
سلیمان نے ریسیور اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
”ہیلو!" عمر ان ماؤتھ پیس میں بولا۔ ”ہاں ہاں عمران نہیں تو کیا کتا بھونک رہا ہے۔“
"تم کل رات ریس کورس کے قریب کیوں نہیں ملے!" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"بھاگ جاؤ گدھے۔“ عمران نے ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھے بغیر سلیمان سے کہا۔
"کیا کہا!" دوسری طرف سے غراہٹ سنائی دی۔
"اوہ۔ وہ تو میں نے سلیمان سے کہا تھا!...میرا نوکر ہے.....ہاں تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلی رات کو ریس کورس کیوں نہیں گیا۔"
”میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔"
"تو سنو میرے دوست!" عمران نے کہا۔ " میں نے اتنی محنت مفت نہیں کی۔" ہینڈ بیگ کی قیمت دس ہزار لگ چلی ہے۔ اگر تم کچھ بڑھو تو میں سودا کر نے کو تیار ہوں۔“
"شامت آگئی ہے تمہاری۔"
"ہاں ملی تھی! مجھے بہت پسند آئی۔“ عمران نے آنکھ مار کر کہا۔
"آج رات اور انتظار کیا جائے گا۔ اس کے بعد کل کسی وقت تمہاری لاش شہر کے کسی گٹر میں بہہ رہی ہو گی۔"
“ارے باپ ! تم نے اچھا کیا کہ بتا دیا اب میں کفن ساتھ لئے بغیر گھر سے باہر نہ نکلوں گا۔“
"میں پھر سمجھاتا ہوں۔“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
"سمجھ گیا!" عمران نے بڑی سعادت مندی سے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
اس نے پھر کتاب اٹھالی اور اسی طرح مشغول ہو گیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی پھر بجی عمران نے ریسیور اٹھا لیا اور جھلائی ہوئی آواز میں بولا۔
"اب میں یہ ٹیلیفون کسی یتیم خانے کو پریزنٹ کردوں گا سمجھے....میں بہت ہی مقبول آدمی ہوں....کیا میں نے مقبول کہا تھا مقبول نہیں مشغول آدمی ہوں۔“
"تم نے ابھی کسی رقم کی بات کی تھی۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"قلم نہیں فاؤنٹین پین!" عمران نے کہا۔
"وقت مت برباد کرو۔" دوسری طرف سے جھلائی ہوئی آواز آئی۔ ”ہم بھی اس کی قیمت دس ہزار لگاتے ہیں!"
"ویری گڈ!" عمران بولا۔ ”چلو تو یہ طے رہا! بیگ تمہیں مل جائے گا۔“
"آج رات کو۔“
"کیا تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو۔" عمران نے پوچھا
"اسی طرح جیسے پہلی انگلی دوسری انگلی کو جانتی ہو۔“
"گڈ" عمران چٹکی بجا کر بولا۔ ”تو تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ میں ازلی احمق ہوں۔"
"تم!"
”ہاں میں! ریس کورس بڑی سنسان جگہ ہے! اگر بیگ لے کر تم نے مجھے ٹھائیں کر دیا تو میں کس سے فریاد کروں گا۔“
"ایسا نہیں ہو گا۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"میں بتاؤں! تم اپنے کسی آدمی کو روپے دے کر ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں بھیج دو! میں مدھو بالا کی جوانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بیگ واپس کر دوں گا۔"
"اگر کوئی شرارت ہوئی تو۔“
”مجھے مرغا بنا دینا۔“
"اچھا! لیکن یہ یاد رہے کہ تم وہاں بھی ریوالور کی نال پر رہو گے۔“
"فکر نہ کرو۔ میں نے آج تک ریوالور کی شکل تک نہیں دیکھی۔" عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا۔
ٹھیک آٹھ بجے کے قریب عمران اپنی بغل میں ایک چرمی ہینڈ بیگ دبائے ٹپ ٹاپ ٹائٹ کلب پہنچ گیا قریب قریب ساری میزیں بھری ہوئی تھیں۔ عمران نے بار کے قریب کھڑے ہو کر مجمع کا جائزہ لیا آخر اس کی نظریں ایک میز پر رک گئیں جہاں لیڈی جہانگیر ایک نوجوان عورت کے ساتھ بیٹھی زرد رنگ کی شراب پی رہی تھی۔ عمران آہستہ آہستہ چلتا ہوا میز کے قریب پہنچ گیا۔
"آہا....مائی لیڈی۔" وہ قدرے جھک کر بولا۔
لیڈی جہانگیر نے داہنی بھوں چڑھا کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور پھر مسکرانے لگی۔
"ہل...لو....عمران....!" وہ اپنا داہنا ہاتھ اٹھا کر بولی۔ ”تمہارے ساتھ وقت بڑا اچھا گزرتا ہے! یہ ہیں مس تسنیم! خان بہادر ظفر تسنیم کی صاحبزادی! اور یہ علی عمران۔“
"ایم-ایس-سی- پی۔ ایچ۔ ڈی" عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔
"بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر" تسنیم بولی۔ لہجہ بیوقوف بنانے کا ساتھا۔
”مجھے افسوس ہوا۔“
"کیوں؟" لیڈی جہانگیر نے حیرت زدہ آواز سے کہا۔
"میں سمجھتا تھا کہ شائد ان کا نام گلفام ہو گا۔“
"کیا بیہودگی ہے!" لیڈی جہانگیر جھنجھلا گئی۔
”سچ کہتا ہوں! مجھے کچھ ایسا ہی معلوم ہوا تھا۔ تسنیم ان کے لئے قطعی موزوں نہیں....یہ تو کسی ایسی لڑکی کا نام ہو سکتا ہے جو تپ دق میں مبتلا ہو تسنیم....بس نام کی طرح کمر جھکی ہوئی۔“
"تم شائد نشے میں ہو۔“ لیڈی جہانگیر نے بات بنائی۔ ”لو اور پیو!“
"فالودہ ہے؟" عمران نے پوچھا
"ڈیئر تسنیم!" لیڈی جہانگیر جلدی سے بولی۔ " تم ان کی باتوں کا برامت ماننا یہ بہت پر مذاق آدمی ہیں! اوہ....عمران بیٹھو نا ۔“
"برا ماننے کی کیا بات ہے" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ”میں انہیں گلفام کے نام سے یاد رکھوں گا۔“
تسنیم بری طرح جھینپ رہی تھی اور شائد اب اسے اپنے رویہ پر افسوس بھی تھا۔
”اچھا میں چلی!" تسنیم اٹھتی ہوئی بولی۔
"میں خود چلا...." عمران نے اٹھنے کا ارادہ کرتے ہوئے کہا۔
"مائی ڈیئرس! تم دونوں بیٹھو۔“ لیڈی جہانگیر دونوں کے ہاتھ پکڑ کر جھومتی ہوئی بولی۔
"نہیں مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔“ تسنیم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
”اور میں!" عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ”تم پر ہزار کام قربان کر سکتا ہوں“
"بکومت جھوٹے....تم مجھے خواہ مخواہ غصہ دلاتے ہو۔“
"میں تمہیں پوجتا ہوں! سوئیٹی....مگر اس بڈھے کی زندگی میں...."
"تم پھر میرا مذاق اڑانے لگے۔"
"نہیں ڈیئرسٹ! میں تیرا چاند تو میری چاندنی....نہیں دل کا لگا...."
”بس بس!..... بعض اوقات تم بہت زیادہ چیپ ہو جاتے ہو!“
"آئی ایم سوری۔" عمران نے کہا اور اس کی نظریں قریب ہی کی ایک میز کی طرف اٹھ گئیں۔ یہاں ایک جانی پہچانی شکل کا آدمی اسے گھور رہا تھا! عمران نے ہینڈ بیگ میز پر سے اٹھا کر بغل میں دبا لیا پھر دفعتاً سامنے بیٹھا ہوا آدمی اسے آنکھ مار کر مسکرانے لگا۔ جواب میں عمران نے باری باری اسے دونوں آنکھیں مار دیں! لیڈی جہانگیر اپنے گلاس کی طرف دیکھ رہی تھی اور شائد اس کے ذہن میں کوئی انتہائی رومان انگیز جملہ کلبلا رہا تھا۔
”میں ابھی آیا!" عمران نے لیڈی جہانگیر سے کہا اور اس آدمی کی میز پر چلا گیا۔
"لائے ہو۔" اس نے آہستہ سے کہا۔
"یہ کیا رہا۔" عمران نے ہینڈ بیگ کی طرف اشارہ کیا پھر بولا۔ "تم لائے ہو۔“
”ہاں آں!“ اس آدمی نے لائے ہوئے ہینڈ بیگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"تو ٹھیک ہے!" عمران نے کہا۔ ”اسے سنبھالو اور چپ چاپ کھسک جاؤ۔"
"کیوں؟“ وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔
"کپتان فیاض کو مجھ پر شبہ ہو گیا ہے ہو سکتا ہے کہ اس نے کچھ آدمی میری نگرانی کے لئے مقرر کر دیے ہوں۔“
"کوئی چال!"
"ہر گز نہیں! آج کل مجھے روپوں کی سخت ضرورت ہے۔“
"اگر کوئی چال ہوئی تو تم بچو گے نہیں۔" آدمی ہینڈ بیگ لے کر کھڑا ہو گیا۔
"یار روپے میں نے اپنا مقبرہ تعمیر کرانے کیلئے نہیں حاصل کئے۔“ عمران نے آہستہ سے کہا۔ پھر وہ اس آدمی کو باہر جاتے دیکھتا رہا۔ اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی۔ وہ اس آدمی کا دیا ہوا ہینڈ بیگ سنبھالتا ہوا پھر لیڈی جہانگیر کے پاس آبیٹھا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں