11: عمران کی شرارتیں اور غیر متوقع انکشافات
عمران کی شرارتیں اور غیر متوقع انکشافات
کیپٹن فیاض کام میں مشغول تھا کہ اس کے پاس عمران کا پیغام پہنچا اس نے اسے اس کے آفس کے قریب ہی ریستوران میں بلوا بھیجا تھا۔ فیاض نے وہاں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگائی عمران ایک خالی میز پر طبلہ بجارہا تھا۔ فیاض کو دیکھ کر احمقوں کی طرح مسکرایا۔
"کوئی نئی بات؟" فیاض نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"میر تقی میر غالب تخلص کرتے تھے؟"
"یہ اطلاع تم بذریعہ ڈاک بھی دے سکتے تھے۔“ فیاض چڑ کر بولا۔
"چودہ تاریخ کی رات کو وہ محبوبہ یک چشم کہاں تھی؟"
”تم آخر اس کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔“
"پتہ لگا کر بتاؤ!....اگر وہ کہے کہ اس نے اپنی وہ رات اپنی کسی خالہ کے ساتھ بسر کی تو تمہارا فرض ہے کہ اس خالہ سے اس بات کی تحقیق کر کے ہمدرد دواخانہ کو فوراً مطلع کردو، ورنہ خط و کتابت صیغہ راز میں نہ رکھی جائے گی۔“
"عمران میں بہت مشغول ہوں!“
”میں بھی دیکھ رہا ہوں! کیا آج کل تمہارے آفس میں مکھیوں کی کثرت ہو گئی ہے! کثرت سے یہ مراد نہیں کہ مکھیاں ڈنڈ پیلتی ہیں۔“
”میں جارہا ہوں۔" فیاض جھنجھلا کر اٹھتا ہوا بولا۔
”ارے کیا تمہاری ناک پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں۔“ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا۔
فیاض اسے گھورتا ہوا بیٹھ گیا! وہ سچ مچ جھنجھلا گیا تھا۔
"تم آئے کیوں تھے۔“ اس نے پوچھا۔
"اوہ ! یہ تو مجھے بھی یاد نہیں رہا!....میرا خیال ہے شائد میں تم سے چاول کا بھاؤ پوچھنے آیا تھا....مگر تم کہو گے کہ میں کوئی ناچنے والی تو ہوں نہیں کہ بھاؤ بتاؤں....ویسے تمہیں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ ان لاشوں کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں محبوبہ یک چشم کا قدم ضرور ہے....میں نے کوئی غلط لفظ تو نہیں بولا....ہاں!“
"اس کا قدم کس طرح!" فیاض یک بیک چونک پڑا۔
"انسائیکلو پیڈیا میں یہی لکھا ہے۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ ”بس یہ معلوم کرو کہ اس نے چودہ کی رات کہاں بسر کی!“
"کیا تم سنجیدہ ہو۔“
"اف فوہ! بیوقوف آدمی ہمیشہ سنجیدہ رہتے ہیں!“
”اچھا میں معلوم کروں گا۔“
”خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے۔ دوسری بات یہ کہ مجھے جج صاحب کے دوست ایاز کے مکمل حالات درکار ہیں وہ کون تھا کہاں پیدا ہوا تھا کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اسکے علاوہ دوسرے اعزہ کہاں رہتے ہیں! سب مر گئے یا ابھی کچھ زندہ ہیں۔“
"تو ایسا کرو! آج شام کی چائے میرے گھر پر پیو۔“ فیاض بولا۔
”اور اس وقت کی چائے۔“ عمران نے بڑے بھولے پن سے پوچھا۔
فیاض نے ہنس کر ویٹر کو چائے کا آرڈر دیا....عمران الوؤں کی طرح دیدے پھرا رہا تھا! وہ کچھ دیر بعد بولا۔
”کیا تم مجھے جج صاحب سے ملاؤ گے۔“
”ہاں میں تمہاری موجودگی میں ہی ان سے اس کے متعلق گفتگو کروں گا۔“
"ہی....ہی....مجھے تو بڑی شرم آئے گی۔“ عمران دانتوں تلے انگلی دبا کر دہرا ہو گیا۔
” کیوں....کیوں بور کر رہے ہو....شرم کی کیا بات ہے۔“
"نہیں میں والد صاحب کو بھیج دوں گا۔“
"کیا بک رہے ہو۔“
"میں براہ راست خود شادی نہیں طے کرنا چاہتا۔“
"خدا سمجھے! ارے میں ایاز والی بات کر رہا تھا۔“
"لا حول ولا قوۃ۔“ عمران نے جھینپ جانے کی ایکٹنگ کی۔
”عمران آدمی بنو۔“
”اچھا!" عمران نے بڑی سعادت مندی سے سر ہلایا۔
خوفناک عمارت
چائے آگئی تھی....فیاض کچھ سوچ رہا تھا! کبھی کبھی وہ عمران کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا جو اپنے سامنے والی دیوار پر لگے ہوئے آئینے میں دیکھ دیکھ کر منہ بنا رہا تھا۔ فیاض نے چائے بنا کر پیالی اس کے آگے کھسکا دی۔
"یار فیاض!....وہ شہید مرد کی قبر والا مجاور بڑا گریٹ آدمی معلوم ہوتا ہے۔“ عمران بولا۔
"کیوں؟"
”اس نے ایک بڑی گریٹ بات کہی تھی۔“
"کیا۔۔۔۔!“
”یہی کہ پولیس والے گدھے ہیں۔“
"کیوں کہا تھا اس نے۔" فیاض چونک کر بولا۔
”پتہ نہیں، لیکن اس نے بات بڑے پتے کی کہی تھی۔“
"تم خواہ مخواہ گالیاں دینے پر تلے ہوئے ہو۔“
"نہیں پیارے! اچھا تم یہ بتاؤ! وہاں قبر کس نے بنائی تھی اور اس ایک کمرے کے پلاسٹر کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔“
"میں فضولیات میں سر نہیں کھپاتا " فیاض چڑ کر بولا۔ "اس معاملہ سے ان کا کیا تعلق۔“
"تب تو کسی اجنبی کی لاش کا وہاں پایا جانا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔" عمران نے کہا۔
"آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔" فیاض جھنجھلا کر بولا۔
"یہ کہ نیک بچے صبح اٹھ کر اپنے بڑوں کو سلام کرتے ہیں۔ پھر ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرتے ہیں....پھر اسکول چلے جاتے ہیں کتاب کھول کر الف سے الو! اب سے بندر....پے سے پتنگ...!"
"عمران خدا کے لئے!" فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔
"اور خدا کو ہر وقت یاد رکھتے ہیں۔“
"بکے جاؤ۔“
”چلو خاموش ہو گیا۔ ایک خاموشی ہزار ٹلا ئیں بالتی ہے....ہائیں کیا ٹلائیں....لا حول ولا قوة....میں نے ابھی کیا کہا تھا؟“
"اپنا سر۔"
"ہاں....شکریہ! میرا سر بڑا مضبوط ہے.....ایک بار اتنا مضبوط ہو گیا تھا کہ میں اسے بینگن کا بھرتہ کہا کرتا تھا۔“
"چائے ختم کر کے دفع ہو جائیے۔" فیاض بولا۔ ”مجھے ابھی بہت کام ہے شام کو گھر ضرور آنا۔“
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں